اس کے کوچے سے صبا گر ادھر آ جاتی ہے
اس کے کوچے سے صبا گر ادھر آ جاتی ہے
دل کے نالوں کی مفصل خبر آ جاتی ہے
گرچہ اس زلف سے کچھ کام نہیں اب تو ولے
سانپ کے کاٹے کی سی اک لہر آ جاتی ہے
میرے ہوتے ہی تمہیں غیر سے تھی کرنی بات
دل میں کچھ کچھ پھر اسی بات پر آ جاتی ہے
یہ غضب ہے کہ وہ روٹھا ہوا پھرتا ہے جو یاں
خواب میں بھی وہی صورت نظر آ جاتی ہے
ذکر چھیڑے کوئی اب کیونکہ مرا اس کے حضور
واں تو ہر بات میں تیغ و سپر آ جاتی ہے
سوجھتا کچھ نہیں اس وقت میاں اپنے تئیں
یاد جس وقت تری مو کمر آ جاتی ہے
کاٹ دیتا ہے وہ ہر بات میں سنتا ہی نہیں
بات میری کبھی مجلس میں گر آ جاتی ہے
اک وفاداری جو ہے آب و گل اپنے میں حسنؔ
پھر طبیعت نہیں پھرتی جدھر آ جاتی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |