اشک ٹپکے حال دل کا کھل گیا
اشک ٹپکے حال دل کا کھل گیا
دیدۂ گریاں سے پردہ کھل گیا
دل سے امڈے اشک خوں آنکھوں کی راہ
جوش مے سے خم کا ڈھکنا کھل گیا
کوچۂ جاناں کی ملتی تھی نہ راہ
بند کیں آنکھیں تو رستہ کھل گیا
ہر گرہ میں اس کے تھے عاشق کے دل
زلف کے کھلتے ہی عقدہ کھل گیا
نرگس جادو ہے اب عالم فریب
زلف کا لوگوں پہ لٹکا کھل گیا
جان کر عنقا کمر کو یار کے
زلف نے پھانسا تھا پھندا کھل گیا
آج کیونکر ہو خبر اس کو نسیمؔ
شعر پڑھنے کا بھی فقرا کھل گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |