اعداد کے ساتھ ادب اور زندگی کی چھیڑ

اعداد کے ساتھ ادب اور زندگی کی چھیڑ (1954)
by سعادت حسن منٹو
319940اعداد کے ساتھ ادب اور زندگی کی چھیڑ1954سعادت حسن منٹو

مسلمانوں نے تیرہ سو سال حکومت کی، مگر اب بیچارے تین میں ہیں نہ تیرہ میں، لیکن چودہ کا عدد بڑا مبارک ہے، اگر کسی کے چودہ طبق روشن ہوتے ہیں تو پورے چودہ ہوتے ہیں، سوا تیرہ نہ پونے چودہ۔ چودھویں کا چاند ہے جس کے متعلق شاعروں نے کیا کچھ نہیں کہا۔ معشوق جب عاشق سے ملتا ہے تو عاشق کی محبت کے آسمان پر چودھویں کا چاند طلوع ہوتا ہے۔ اس مصلحت کے ساتھ کہ دوسری رات ہی ڈھلنا شروع ہو جائے اور چودہ کا سن کیا کیا قیامت نہیں ڈھاتا۔ میٹھا برس جوانوں کی زندگی میں کوٹ کوٹ کر شیرینیاں بھر دیتا ہے۔

راجہ رام چندر جی نے چودہ ہی برس کا بن باس کاٹا۔ تیرہ برس یا ساڑھے تیرہ برس جنگلوں میں رہ کے آئے ہوتے تو وہ بات کبھی نہ بنتی جو پورے چودہ برس کاٹنے پر بنی۔ ان کے عہد کا وہ ’’سنہرا زمانہ‘‘ وقت کی کوکھ ہی میں سویا رہتا یا غیر طبعی موت مر جاتا۔ لیکن وہ چودہ برس کالے پانی کی سزا۔ خدا بچائے بہت اچھا ہوا جو یہ کالا پانی بھارت بہہ گیا، لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس سزا کی میعاد ہمارے قانونی خداؤں نے دس گیارہ برس کیوں نہ رکھی۔ کوئی خاص مصلحت ہوگی۔

تین اور تیرہ کے عدو عام طور پر منحوس خیال کئے جاتے ہیں۔ پنجابی میں تیسرے آدمی کی شرکت پر کہا جاتا ہے، ’’تیسرا رلیا تے جھگا گلیا۔‘‘ یعنی تیسرے کا سا جھا برا۔ تین کانے ہیں چوسر کے، نامرادی اور ناکامی کے نشان۔ تین تیرہ کریں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ تتر بتر کر رہے ہیں۔ بس جب کسی مشتعل ہجوم کو منشتر کرنا ہو تو ڈائس پر چڑھ کر بلند آواز میں یہ نعرہ لگا دیجئے، سب تتر بتر ہو جائیں گے۔ مرنے پر آپ قبر میں جائیں گے تو وہاں بھی تین کا عدد آپ کو نہیں چھوڑے گا۔ تین دن قبر میں آپ پر ضرور بھاری ہوں گے، لیکن تین حرف بھیجئے اس تین پر۔ لیکن ابھی یہ سلسلہ کہاں ختم ہو گا، اگر آپ تین پانچ کریں گے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ آپ یا تو کسی سے تکرار کر رہے ہیں یا کسی کا مال اڑائے لئےجا رہے ہیں۔

اگر آپ دعوت میں تین آدمی بلاتے ہیں، لیکن تیرہ آ جاتے ہیں تو آپ گھر والی سے کہیں گے تین بلائے تیرہ آئے، دے دال میں پانی، لیکن اگر گیارہ بارہ آئیں گے تو پھر آپ دال میں پانی نہیں ڈال سکیں گے، کیونکہ یہ اصول ہے کہ محاورہ کبھی تبدیل نہیں ہو سکتا خواہ آپ کا اپنا حلیہ تبدیل ہو جائے۔

آپ تیرہ کا ایک لطیفہ سنیئے۔ یہ عدد بھی ماشاء اللہ بڑا حضرت ہے۔ ایک صاحب گھر سے سفر پر نکلے۔ اکتوبر کی تیرہ تاریخ تھی۔ تیرہ نمبر کے پلیٹ فارم پر ان کی گاڑی کھڑی تھی۔ تیرہ نمبر کے ڈبے میں انہیں تیرہ نمبر کی سیٹ ملی۔ منزل مقصود پر ہوٹل جانے کے لئے ٹیکسی لی تو اس کا نمبر بھی تیرہ تھا۔ جس ہوٹل میں ان کو رہنا تھا تیرہ نمبر کے بازار میں تھا۔ تیرہ کا نمبر ان کے ساتھ بری طرح چپک گیا تھا۔ دوسرے روز وہ ریس کورس میں بہت دیر سے پہنچے۔ تیرہویں ریس شروع ہونے والی تھی۔ آپ نے سوچا شگون اچھا ہے۔ تیرہ نمبر کے گھوڑے پر ڈھیر سا روپیہ لگا دیا۔ معلوم ہے کیا ہوا؟ تیرہ نمبر کی ریس میں تیرہ نمبر کا گھوڑا تیرھویں نمبر پر آیا۔ یعنی بالکل پھسڈی۔

تیرہ کو چھوڑیئے۔ تین کا عدد باوجود اس کے کہ منحوس خیال کیا جاتا ہے، ہماری زندگی کا ایک اہم جزو ہے، ہندوؤں میں ترشول، عیسائیوں میں خدا، بیٹے، روح القدس کی مقدس تثلیث، مسلمانوں میں خدا، اس کا رسول ؐ اور قرآن پاک۔

اب عدد چار کو لیجئے، کسی کے اگر لگتے ہیں تو چار چاند ہی لگتے ہیں۔ چاند تو ضرور ایک ہے، معلوم نہیں باقی تین کن آسمانوں سے نوچ کر لگائے جاتے ہیں اور چار دن کی چاندنی ہے جس کے آگے کچھ نہیں صرف اندھیری رات ہے جس میں آپ ٹھوکریں کھاتے پھریئے۔ کسی کا ڈنکا بجتا ہے تو تین دانگ نہیں چار دانگ بجتاہے۔ خواہ کسی بھی دانگ تک اس کی آواز نہ پہنچے۔ آدمی ہوشیار ہوتا ہے تو چاروں گانٹھ ہوشیار ہوتا ہے خواہ اس کے پاس ایک چھوٹی سی گانٹھ بھی ہوشیار ہونے کے لئے نہ ہو، اور کسی کو مار پڑتی ہے تو چار چوٹ کی مار پڑتی ہے یعنی چار چوٹیں لگائیں اور یہ جاوہ جا۔ زندگی ہوتی ہے چار دن کی پانچویں دن یہ ختم ہو جاتی ہے۔ اکھاڑے میں اگر کوئی پہلوان گرتا ہے تو سوا تین یا ساڑھے تین شانے چت نہیں گرتا۔ اسے محاورہ کے مطابق پورے چاروں شانے چت گرنا پڑتا ہے تاکہ اس کو مکمل عبرت حاصل ہو۔

اگر مرد اپنی عورت کو گھر میں قید رکھنا چاہے تو اس گھر کی چاردیواریں ضرور ہونی چاہئیں پانچ یا چھ ہوں گی تو معاملہ بگڑ جائے گا اور تین ہوں گی تو ایک رستہ بھاگنے کے لئے کھلا رہے گا۔ رسول اکرم ﷺ کے اصحاب اربعہ لیجئے۔ چار یار، پانچواں کوئی بھی نہیں۔ اس سے عدد چار کی عظمت بہت زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔ تین پہیوں کی موٹر یا گاڑی ہو سکتی ہے لیکن آپ تین پایوں کی چارپائی پر کبھی نہیں سو سکتے اور اگر آپ بے مروت ہیں تو آپ کو چار چشم کہا جائے گا۔ خواہ آپ کی صرف تین آنکھیں ہوں۔ اس لئے کہ محاورہ ویسے کا ویسا رہے گا۔ اور جب آپ راہی ملک عدم ہوں گے تو محاورہ دان کہیں گے، آخر بیچارے چار کے کندھے پر چڑھ گئے۔

اب چالیس کا عدد لیجئے۔ یہ بھی اپنی جگہ کافی اہم ہے یعنی اگر آپ نرے کھرے بیوقوف ہیں یعنی بڑے ہائی کلاس ایڈیٹ ہیں تو آپ کا وزن چالیس سیر ہونا چا ہئے کیونکہ محاورہ ہے، ’’چالیس سیرا اوت۔‘‘ سو اگر آپ اس قسم کے صاحب کمال ہیں تو آپ کو اپنا وزن محاورے کے مطابق کرنا پڑے گا۔ بچہ پیدا ہوتا ہے تو ماں انتالیس دن کے بعد نہیں پورے چالیس دن کے بعد نہاتی ہے۔ یہ میرا خیال ہے محاورہ نہیں رواج ہے اور رواج کی بھی پابندی کرنی پڑتی ہے۔ بڑی بوڑھیوں سے سنا ہے اگر ایک دن اوپر نیچے ہو جائے تو آفت آ جاتی ہے۔ اس لئے عورتیں ایسا نہیں ہونے دیتیں۔ پورے چالیس دن چارپائی کے ساتھ لگی رہتی ہیں۔

اور جب کوئی مرتا ہے تو اس کا سوگ بھی چالیس دن منایا جاتا ہے۔ چالیسویں دن اس کا چالیسواں ہوتا ہے یعنی فاتحہ پڑھی جاتی ہے۔ اس کے بعد اگر مرنے والے کے عزیز اس کو بھولنا چاہیں تو بڑے شوق سے بھول سکتے ہیں، کیونکہ اتنے دن کے سوگ سے مرحوم و مغفور کی سنا ہے پوری تشفی ہو جاتی ہے۔ چلہ کمانا ہو تو آپ کو چالیس دن ہی کمانا ہوگا، اگر آپ نے اس میعاد سے ایک دن کم یا زیادہ عمل کیا تو آپ کے حق میں قطعاً غیر مفید ہوگا۔ بہت ممکن ہے چلہ الٹ کر آپ پر سوار ہو جائے۔ اور آپ کو یاد ہوگا کہ علی بابا کے ساتھ کتنے چور تھے؟ پورے چالیس، ایک کم نہ ایک زیادہ، آپ یہاں کسی علی بابا سے کہئے کہ وہ چالیس سے کم چوروں کی جماعت بنائے، مجال ہے جو کھل جا سم سم کام کرے۔ میں تو چنانچہ اپنے سیاسی علی باباؤں کو یہی مشورہ دوں گا کہ وہ اپنے ساتھ چالیس سیاسی چوروں اور گٹھ کتروں کی کھیپ رکھا کریں۔ انشاء اللہ ہر دروازہ ان کے کھل سم سم کہنے پر کھل جایا کرئے گا۔

کھانے کے بعد چہل قدمی اطبائے قدیم کا حکم ہے، آپ کھانا کھانے کے بعد گھر سے باہر نکلیں تو اپنے قدم گننا شروع کر دیں جہاں چالیس ختم ہوں وہیں چار پائی بچھائی اور سو گئے۔ اگر آپ گھر واپس آنا چاہیں تو بیس قدم آگے بیس قدم پیچھے چلئے، مگر دیکھئے حساب میں غلطی نہ ہو کیونکہ معدے میں خلل پیدا ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ انگریز چہل قدمی نہیں کرتے شاید مختلف آب و ہوا کے باعث، لیکن وہ کھانا کھانے کے بعد ’’فورٹی ونکس‘‘ لگاتے ہیں، یعنی چالیس مرتبہ آنکھیں جھپکنے کے عرصہ تک قیلولہ کرتے ہیں، خود آنکھیں نہیں جھپکتے، ان کی جگہ کوئی اور جھپکتا ہے وہ خود سوئے رہتے ہیں، جب ’’فورٹی ونکس‘‘ پوری ہو جاتی ہے تو ان کو جگا دیا جاتا ہے۔ اور ’’وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں‘‘ اس کے متعلق کون نہیں جانتا۔

اب چھوٹے موٹے عدد ہیں۔ مثال کے طور پر انیس بیس کا فرق یعنی کوئی فرق نہیں، لیکن بینک والے اسے نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک پائی کا فرق پہاڑ جتنا فرق ہوتا ہے، لیکن انہیں کون سمجھائے۔ وہ آنے پائیوں کے چکر میں اس قدر غرق رہتے ہیں کہ انہیں سمجھنے سمجھانے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ جو آدمی اکیس کا ہو، اس کا مطلب ہے کہ وہ غالب ہے، اس کا پلہ بھاری ہے، خواہ دوسرا دس ہزار ہی کیوں نہ ہو۔ اگر آپ بتیس دانتوں سے کسی کے لئے بددعا مانگیں تو وہ خدا کے حضور ضرور قبول ہوگی لیکن اگر آپ کے ایک دو دانت جھڑے ہوئے ہیں تو بددعا دینے کا خیال دماغ سے نکال دیجئے گا۔

بتیس دھار کا دودھ ہے یعنی شیر مادر، اگر ایک دھارا اِدھر اُدھر ہو گئی تو ایک نہ ایک دن آپ کو چھٹی کا دودھ ضرور یاد آ جائے گا۔ اگر آپ بد زبان ہیں تو آپ کی زبان محاورے کے مطابق یا تو دس ہاتھ کی ہونی چاہیئے یا دس گز کی۔ بہرحال جو صاحب یہ صفت رکھتے ہیں، وہ اپنی زبان کی پیمائش کرا لیں۔ دس کے عدد نے خدا معلوم کیا گناہ کیا تھا کہ حکومت نے غریب کو مہاغنڈوں اور بدمعاشوں کے ساتھ منسوب کر دیا۔ دس نمبریئے کافی مشہور ہیں مگر اب کہ حکومت ان کے انسداد کی طرف مائل ہو رہی ہے شاید اس غریب عدد کی سنی جائے۔

نوگزے کی قبر ہے جو قریب قریب ہر شہر میں موجود ہے، معلوم نہیں یہ کون صاحب تھے جو اتنا بڑا قد سنبھالے بیک وقت کئی شہروں میں قیام فرماتے رہے اور جب آپ نے انتقال فرمایا تو پورے نو گز قد کے ساتھ تمام شہروں میں ایک ہی وقت فرمایا۔ اچھا۔۔۔ اگر آپ رادھا سے ناچنے کےلئے کہیں تو آپ کے پاس پورے نومن تیل موجود ہونا چا ہیئے۔ ایک چھٹانک کم ہوا تو وہ ناچنے سے انکار کر دے گی اور آپ کو دوست احباب کے سامنے خفت اٹھانی پڑے گی۔ نو نقد نہ تیرہ ادھار۔۔۔ درست ہے، آپ کہئے کہ میاں نو اور تیرہ کا قصہ ختم کرو۔ مجھے چودہ کا ادھار دو تمہیں اسی حساب سے سترہ دے دوں گا، مگر ایسے بیوقوف کم ملتے ہیں۔

ایک کا عدد تھا۔ وہ خداوند تعالیٰ جل جلالہ، وحق شانہ، نے یہ دنیا بناتے ہی اپنے نام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے الاٹ کرا لیا تھا۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.