افسانہ نگار اور جنسی مسائل
کوئی حقیر سے حقیر چیز ہی کیوں نہ ہو، مسائل پیدا کرنے کا باعث ہو سکتی ہے۔ مسہری کے اندر ایک مچھر گھس آئے تو اس کو باہر نکالنے، مارنے اور آئندہ کے لئے دوسرے مچھروں کی روک تھام کرنے کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔۔۔ لیکن دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ، یعنی تمام مسئلوں کا باپ، اس وقت پیدا ہوا تھا جب آدم نے بھوک محسوس کی تھی اور اس سے چھوٹا مگر دلچسپ مسئلہ اس وقت پردۂ ظہور پر آیا تھا جب دنیا کے اس سب سے پہلے مرد کی دنیا کی سب سے پہلی عورت سے ملاقات ہوئی تھی۔
یہ دونوں مسئلے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، دو مختلف قسم کی بھوکیں ہیں جن کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اس وقت جتنے معاشرتی، مجلسی، سیاسی اور جنگی مسائل نظر آتے ہیں، ان کے عقب میں یہی دو بھوکیں جلوہ گر ہیں۔ موجودہ جنگ کا خونیں پردہ اگر اٹھا دیا جائے تو لاشوں کے انبار کے پیچھے آپ کو ملک گیری کی بھوک کے سوا اور کچھ نظر نہیں آئے گا۔ بھوک کسی قسم کی بھی ہو، بہت خطرناک ہے۔۔۔ آزادی کے بھوکوں کو اگر غلامی کی زنجیریں ہی پیش کی جاتی رہیں تو انقلاب ضرور برپا ہوگا۔۔۔ روٹی کے بھوکے اگر فاقے ہی کھینچتے رہے تو وہ تنگ آ کر دوسرے کا نوالہ ضرور چھینیں گے۔۔۔ مرد کی نظروں کو اگر عورت کے دیدار کا بھوکا رکھا گیا تو شاید وہ اپنے ہم جنسوں اور حیوانوں ہی میں اس کا عکس دیکھنے کی کوشش کریں۔
دنیا میں جتنی لعنتیں ہیں، بھوک ان کی ماں ہے۔۔۔ بھوک گداگری سکھاتی ہے۔ بھوک جرائم کی ترغیب دیتی ہے۔ بھوک عصمت فروشی پر مجبور کرتی ہے۔ بھوک انتہا پسندی کا سبق دیتی ہے۔۔۔ اس کا حملہ بہت شدید، اس کا وار بہت بھرپور اور اس کا زخم بہت گہرا ہوتا ہے۔ بھوک دیوانے پیدا کرتی ہے۔ دیوانگی بھوک پیدا نہیں کرتی۔
دنیا کے کسی کونے کا مصنف ہو، ترقی پسند ہو یا تنزل پسند، بوڑھا ہو یا جوان، اس کے پیش نظر دنیا کے تمام بکھرے ہوئے مسائل رہتے ہیں۔ چن چن کر وہ ان پر لکھتا رہتا ہے۔ کبھی کسی کے حق میں کبھی کسی کے خلاف۔ آج کا ادیب بنیادی طور پر آج سے پانچ سو سال پہلے کے ادیب سے کوئی زیادہ مختلف نہیں۔۔۔ ہر چیز پر نئے پرانے کا لیبل وقت لگاتا ہے۔ انسان نہیں لگاتا۔۔۔ ہم آج نئے ادیب کہلاتے ہیں۔ آنے والی کل ہمیں پرانا کر کے الماریوں میں بند کر دے گی، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم بے کار جئے، ہم نے مفت میں مغز دردی کی۔ گھڑی کی سوئی جب ایک سے گزر کر دو کی طرف رینگتی ہے تو ایک کا ہندسہ بے مصرف نہیں ہو جاتا۔۔۔ پورا سفر طے کر کے سوئی پھر اسی ہندسے کی طرف لوٹتی ہے۔۔۔ یہ گھڑی کا اصول بھی ہے اور دنیا کا بھی۔
آج کے نئے مسائل بھی گزری ہوئی کل کے پرانے مسائل سے بنیادی طور پر مختلف نہیں، جو آج کی برائیاں ہیں، گزری ہوئی کل ہی نے ان کے بیج بوئے تھے۔ جنسی مسائل جس طرح آج کے نئے ادیبوں کے پیش نظر ہیں، اسی طرح پرانے ادیبوں کے پیش نظر بھی تھے۔ انہوں نے ان پر اپنے رنگ میں لکھا۔ ہم آج اپنے رنگ میں لکھ رہے ہیں۔ مجھے معلوم نہیں، مجھ سے جنسی مسائل کے متعلق بار بار کیوں پوچھا جاتا ہے۔۔۔ شاید ا س لئے کہ لوگ مجھے ترقی پسند کہتے ہیں یا شاید اس لئے کہ میرے چند افسانے جنسی مسائل کے متعلق ہیں یا پھر ا س لئے کہ آج کے نئے ادیبوں کو بعض حضرات ’’جنس زدہ‘‘ قرار دے کر انہیں ادب، مذہب اور سماج سے یک قلم خارج کر دینا چاہتے ہیں۔ وجہ کچھ بھی ہو، میں اپنا نقطہ نظر بیان کئے دیتا ہوں،
روٹی اور پیٹ، عورت اور مرد۔۔۔ یہ دو بہت پرانے رشتے ہیں۔ ازلی اور ابدی۔۔۔ روٹی زیادہ اہم ہے یا پیٹ۔۔۔ عورت زیادہ ضروری ہے کہ مرد۔۔۔ میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا، اس لئے کہ میرا پیٹ روٹی مانگتا ہے، لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ گیہوں بھی میرے پیٹ کے لئے اتنا ہی ترستا ہے جتنا کہ میرا پیٹ! پھر بھی، جب میں سوچتا ہوں کہ زمین نے گیہوں کے خوشوں کو بیکار جنم نہیں دیا ہوگا تو مجھے خوش فہمی ہوتی ہے کہ میرے پیٹ ہی کے لئے وسیع و عریض کھیتوں میں سنہری بالیں جھومتی ہیں اور پھر ہو سکتا ہے کہ میرا پیٹ پہلے پیدا ہوا اور گیہوں کی یہ بالیاں کچھ دیر بعد۔ کچھ بھی ہو، لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا کا ادب صرف ان دو رشتوں ہی سے متعلق ہے۔۔۔ الہامی کتابیں بھی، جن کو آسمانی ادب کہنا چاہیئے، روٹی اور پیٹ، عورت اور مرد کے تذکروں سے خالی نہیں۔
مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ مسائل اتنے پرانے ہیں کہ ان کا ذکر الہامی کتابوں میں بھی آ چکا ہے تو پھر کیوں آج کے ادیب ان پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔۔۔ کیوں کر عورت اور مرد کے تعلقات کو بار بار کریدا جاتا ہے اور بقول شخصے عریانی پھیلائی جاتی ہے۔۔۔ جواب اس سوال کا یہ ہے کہ اگر ایک ہی بار، جھوٹ نہ بولنے اور چوری نہ کرنے کی تلقین کرنے پر ساری دنیا جھوٹ اور چوری سے پرہیز کرتی تو شاید ایک ہی پیغمبر کافی ہوتا۔۔۔ لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں، پیغمبروں کی فہرست خاصی لمبی ہے۔ ہم لکھنے والے پیغمبر نہیں۔ ہم ایک ہی چیز کو، ایک مسئلے کو مختلف حالات میں مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں اور جو کچھ ہماری سمجھ میں آتا ہے، دنیا کے سامنے پیش کر دیتے ہیں اور کبھی مجبور نہیں کرتے کہ وہ اسے قبول ہی کرے۔ ہم قانون ساز نہیں، محتسب بھی نہیں۔ احتساب اور قانون سازی دوسروں کا کام ہے۔ ہم حکومتوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں، لیکن خود حاکم نہیں بنتے۔ ہم عمارتوں کے نقشے بناتے ہیں لیکن معمار نہیں۔ ہم مرض بتاتے ہیں لیکن دواخانوں کے مہتمم نہیں۔
ہم جنسیات پر نہیں لکھتے۔ جو سمجھتے ہیں کہ ہم ایسا کرتے ہیں، یہ ان کی غلطی ہے۔ ہم اپنے افسانوں میں خاص عورتوں اور خاص مردوں کے حالات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ہمارے کسی افسانے کی ہیروئن سے اگر اس کا مرد صرف اس لئے متنفر ہو جاتا ہے کہ وہ سفید کپڑے پسند کرتی ہے اور سادگی پسند ہے تو دوسری عورتوں کو اسے اصول نہیں سمجھ لینا چاہیئے۔ یہ نفرت کیوں پیدا ہوئی اور کن حالات میں پیدا ہوئی۔۔۔ اس استفہام کا جواب آپ کو ہمارے افسانے میں ضرور مل جائے گا۔ جو لوگ ہمارے افسانوں میں لذت حاصل کرنے کے طریقے دیکھنا چاہتے ہیں، انہیں یقیناً ناامیدی ہوگی۔۔۔ ہم داؤ پیچ بتانے والے خلیفے نہیں۔۔۔ ہم سب اکھاڑے میں کسی کو گرتا دیکھتے ہیں تو اپنی سمجھ کے مطابق آپ کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کیوں گرا تھا۔
ہم رجائی ہیں۔۔۔ دنیا کی سیاہیوں میں بھی ہم اجالے کی لکیریں دیکھ لیتے ہیں۔ ہم کسی کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتے۔۔۔ چکلوں میں جب کوئی ٹکھیائی اپنے کوٹھے پر سے کسی راہ گزر پر پان کی پیک تھوکتی ہے تو ہم دوسرے تماشائیوں کی طرح نہ تو کبھی اس راہ گزر پر ہنستے ہیں اور نہ کبھی اس ٹکھیائی کو گالیاں دیتے ہیں۔۔۔ ہم یہ واقعہ دیکھ کر رک جائیں گے۔۔۔ ہماری نگاہیں اس غلیظ پیشہ ور عورت کے نیم عریاں لباس کو چیرتی ہوئی، اس کے سیاہ عصیاں بھرے جسم کے اندر داخل ہو کر اس کے دل تک پہنچ جائیں گی۔۔۔ اس کو ٹٹولیں گی اور ٹٹولتے ٹٹولتے ہم خود کچھ عرصے کے لئے تصور میں وہی کریہہ اور متعفن رنڈی بن جائیں گے۔۔۔ صرف اس لئے کہ ہم اس واقعے کی تصویر ہی نہیں بلکہ اس کے اصل محرک کی وجہ بھی پیش کر سکیں۔
جب کسی اچھے خاندان کی جوان، صحت مند اور خوبصورت لڑکی کسی مریل، بدصورت اور قلاش لڑکے کے ساتھ بھاگ جاتی ہے تو ہم اسے ملعون قرار نہیں دیں گے۔۔۔ دوسرے، اس لڑکی کا ماضی، حال اور مستقبل اخلاق کی پھانسی میں لٹکا دیں گے، لیکن ہم وہ چھوٹی سی گرہ کھولنے کی کوشش کریں گے، جس نے اس لڑکی کے ادراک کو بے حس کیا۔ انسان ایک دوسرے سے کوئی زیادہ مختلف نہیں۔ جو غلطی ایک مرد کرتا ہے، دوسرا بھی کر سکتا ہے۔ جب ایک عورت بازار میں دکان لگا کر اپنا جسم بیچ سکتی ہے تو دنیا کی سب عورتیں کر سکتی ہیں۔۔۔ لیکن غلط کار انسان نہیں، وہ حالات ہیں جن کی کھیتیوں میں انسان اپنی غلطیاں پیدا کرتا ہے اور ان کی فصلیں کاٹتا ہے۔
زیادہ تر جنسی مسائل ہی آج کے نئے ادیبوں کی توجہ کا مرکز کیوں بنے ہیں، اس کا جواب معلوم کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں۔ یہ زمانہ عجیب و غریب قسم کے اضداد کا زمانہ ہے۔۔۔ عورت قریب بھی ہے، دور بھی۔۔۔ کہیں مادر زاد برہنگی نظر آتی ہے، کہیں سر سے لے کر پیر تک ستر۔۔۔ کہیں عورت، مرد کے بھیس میں دکھائی دیتی ہے کہیں مرد عورت کے بھیس میں۔
دنیا ایک بہت بڑی کروٹ لے رہی ہے۔۔۔ ہندوستان بھی۔ جہاں آزادی کا ننھا منا بچہ غلامی کے دامن سے آنسو پونچھ رہا ہے، مٹی کا نیا گھروندا بنانے کے لئے ضد کر رہا ہے۔۔۔ مشرقی تہذیب کی چولی کے بند کبھی کھولے جاتے ہیں، کبھی بند کئے جاتے ہیں۔ مغربی تہذیب کے چہرے کا غازہ کبھی ہٹایا جاتا ہے، کبھی لگایا جاتا ہے۔۔۔ ایک افراتفری سی مچی ہے۔۔۔ نئے کھٹ بنے پرانی کھاٹوں کی مونج ادھیڑ رہے ہیں۔ پرانے کھٹ بنے چلا رہے ہیں۔ ہلی ہوئی چولوں سے کہیں کھٹمل نکل رہے ہیں، کہیں پسو۔۔۔ کوئی کہتا ہے انہیں زندہ رہنے دو، کوئی کہتا ہے نہیں، فنا کردو۔۔۔ اس دھاندلی میں، اس شورش میں ہم نئے لکھنے والے اپنے قلم سنبھالے کبھی اس مسئلے سے ٹکراتے ہیں، کبھی اس مسئلے سے۔
اگر ہماری تحریروں میں عورت اور مرد کے تعلقات کا ذکر آپ کو زیادہ نظر آئے تو یہ ایک فطری بات ہے۔ ملک، ملک سے سیاسی طور پر جدا کئے جا سکتے ہیں۔ ایک مذہب دوسرے مذہب سے عقیدوں کی بنا پر علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔ دو زمینوں کو ایک قانون ایک دوسرے سے بیگانہ کر سکتا ہے۔ لیکن کوئی سیاست، کوئی عقیدہ، کوئی قانون، عورت اور مرد کو ایک دوسرے سے دور نہیں کر سکتا۔ عورت اور مرد میں جو فاصلہ ہے۔۔۔ اس کو عبور کرنے کی کوشش ہر زمانے میں ہوتی رہے گی۔۔۔ عورت اور مرد میں جو ایک لرزتی ہوئی دیوار حائل ہے، اسے سنبھالنے اور گرانے کی سعی ہر صدی، ہر قرن میں ہوتی رہے گی۔۔۔ جو اسے عریانی سمجھتے ہیں، انہیں اپنے احساس کے ننگ پر افسوس ہونا چاہیئے، جو اسے اخلاق کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ اخلاق زنگ ہے جو سماج کے استرے پر بے احتیاطی سے جم گیا ہے۔
جو سمجھتے ہیں کہ نئے ادب نے جنسی مسائل پیدا کئے ہیں، غلطی پر ہیں کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جنسی مسائل نے اس نئے ادب کو پیدا کیا ہے۔ اس نئے ادب کو جس میں، آپ کبھی کبھی اپنا ہی عکس دیکھتے ہیں، جھنجھلا اٹھتے ہیں۔۔۔ حقیقت خواہ شکر ہی میں لپیٹ کر پیش کی جائے، اس کی کڑواہٹ دور نہیں ہوگی۔ ہماری تحریریں آپ کو کڑوی اور کسیلی لگتی ہیں، مگر اب تک مٹھاسیں آپ کو پیش کی جاتی رہی ہیں۔ ان سے انسانیت کو کیا فائدہ ہوا ہے۔۔۔ نیم کے پتے کڑوے سہی، مگر خون ضرور صاف کرتے ہیں۔
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |