افطار
روزہ دار روزہ کھلوادے، اللہ تیرا بھلا کرے گا۔ کی صدائیں ڈیوڑھی سے آئیں۔ ڈپٹی صاحب کی بیگم صاحبہ جن کا مزاج پہلے ہی سے چڑچڑا تھا بولیں، ’’نامعلوم کم بخت یہ سارے دن کہاں مر جاتے ہیں۔ روزہ بھی تو چین سے نہیں کھولنے دیتے!‘‘
’’اللہ تیرا بھلا کرے گا!‘‘ کی کانپتی آواز پھر گھر میں پہنچی۔
’’نصیباً، اری او نصیباً! دیکھ وہاں قفلی میں کچھ جلیبیاں پرسوں کی بچی ہوئی رکھی ہیں فقیر کو دے دے۔‘‘
نصیباً نے پوچھا کہ ’’اور بھی کچھ؟‘‘
’’اور کیا چاہئے! سارا گھر اٹھا کر نہ دے دے۔‘‘
نصیباً دوپٹہ سنبھالتی ہوئی اندر چلی گئی۔ برآمدے میں تخت پر بیگم صاحبہ بیٹھی تھیں۔ دسترخوان سامنے بچھا تھا جس پر چند افطاری کی چیزیں چنی ہوئی تھیں اور کچھ ابھی تلی جا رہی تھیں۔ منٹ منٹ میں گھڑی دیکھ رہی تھیں کہ کب روزہ کھلے اور کب وہ پان اور تمباکو کھائیں۔ ویسے ہی بیگم صاحبہ کا مزاج کیا کم تھا لیکن رمضان میں تو ان کی خوش مزاجی نوکروں میں ایک کہاوت کی طرح مشہور تھی۔ سب سے زیادہ آفت بے چاری نصیباً کی آتی ہے۔ گھر کی پلی چھوکری تھی۔ بیگم صاحبہ کے سوا دنیا میں اس کا کوئی نہ تھا اور بیگم صاحبہ اپنی اس مامتا کو نصیباً کی اکثر مرمت کرکے پورا کر لیا کرتی تھیں، حالانکہ گرمی رخصت ہو گئی تھی لیکن پھر بھی ایک پنکھا بیگم صاحبہ کے قریب رکھا رہتا تھا، جو ضرورت کے وقت نصیباً کی خبر لینے میں کام آتا تھا۔
’’ارے کیا وہیں مر گئی! نکلتی کیوں نہیں!‘‘ نصیباً نے جلدی سے منہ پونچھا جلیبیاں لے کر ڈیوڑھی کی طرف چلی۔
’’ادھر تو دکھا، کتنی ہیں؟‘‘
نصیباً نے آکر ہاتھ پھیلا دیا۔ اس میں صرف دو جلیبیاں تھیں۔
’’دو!‘‘ بیگم صاحبہ زور سے چیخ پڑیں، ’’اری اجڑی اس میں تو زیادہ تھیں۔ ادھر تو آ، کیا تو کھا گئی؟‘‘
’’جی نہیں‘‘ نصیباً منہ ہی منہ میں منمنائی۔ لیکن بیگم صاحبہ کی ایکسرے نگاہوں نے جلیبی کے ٹکڑے نصیباً کے دانتوں میں لگے دیکھ ہی لئے۔ بس پھر کیا تھا آؤ دیکھا نہ تاؤ، پنکھا اٹھا کر پھیل ہی تو پڑیں، ’’حرامزادی، یہ تیرا روزہ ہے! قطامہ! تجھ سے آدھ گھنٹے اور نہ صبر کیا گیا۔ ٹھہر تو! میں تجھے چوری کا مزا چکھاتی ہوں۔‘‘
’’اللہ تیرا بھلا کرے گا اپاہج کا روزہ کھلوا دے۔‘‘
’’اب نہیں۔ اچھی بیگم صاحب اب نہیں۔ اللہ بیگم صاحب معاف کیجئے، اچھی بیگم صاحب۔ اچھی۔۔۔‘‘
نصیباً گڑگڑانے لگی۔
’’اب نہیں، اب نہیں کیسی۔ ٹھہر تو تو! مردار تیرا دم ہی نہ نکال کر چھوڑا ہو روزہ توڑنے کا مزہ!‘‘
’’تیرے بال بچوں کی خیر! روزہ دار کا روزہ!‘‘
جب بیگم صاحبہ بے دم ہو کر ہانپنے لگیں تو نصیباً کو دھکا دے کر بولیں، ’’جا کم بخت! جا کر فقیر کو یہ جلیبیاں دے آ، بے چارہ بڑی دیر سے چیخ رہا تھا۔ اور لے یہ دال بھی۔‘‘
بیگم صاحبہ نے تھوڑی سی دال نصیباً کی مٹھی میں ڈال دی۔ نصیباً سسکیاں بھرتی ہوئی ڈیوڑھی پر گئی۔ دو جلیبیاں اور دال فقیر کو دے آئی۔
نئی سٹرک جو شاید کبھی نئی ہو، اب تو پرانی اور ردی حالت میں تھی اس کے دونوں طرف گھر تھے۔ بس کہیں کہیں کوئی مکان ذرا اچھی حالت میں نظر آ جاتا تھا۔ زیادہ تر مکان پرانے اور بوسیدہ تھے۔ جو اس محلے کی گری ہوئی حالت کا پتہ دیتے تھے۔ یہ سٹرک ذرا چوڑی تھی جس کو رنگریز، دھوبی، جلا ہے اور لوہار وغیرہ علاوہ چلنے پھرنے کے آنگن کی طرح استعمال کرنے پر مجبور تھے۔ گرمیوں میں اتنی چارپائیاں بچھی ہوتی تھیں کہ یکہ بھی مشکل سے نکل سکتا تھا۔
اس محلہ میں زیادہ تر مسلمان آباد تھے، علاوہ گھروں کے یہاں تین مسجدیں تھیں۔ ان مسجدوں کے ملاؤں میں ایک قسم کی بازی لگی رہتی تھی کہ کون ان جاہل غریبوں کو زیادہ الو بنائے اور کون ان کی گاڑھی کمائی میں سے زیادہ ہضم کرے۔ یہ ملا بچوں کو قرآن پڑھانے سے لے کر چھاڑ پھونک، تعویذ، گنڈا، غرض کہ ہر ان طریقوں کے استاد تھے کہ جن سے وہ ان جلاہوں اور لوہاروں کے بے وقوف بنا سکیں۔ یہ تین بے کار اور فضول خاندان ان محنت کرنے والے انسانوں کے بیچ میں اس طرح رہتے تھے کہ جس طرح گھنے جنگلوں میں دیمک رہتی ہے اور آہستہ آہستہ درختوں کو چاٹتی رہتی ہے۔ یہ ملا سفید پوش تھے اور ان کے پیٹ پالنے والے میلے اور گندے تھے۔ یہ ملا صاحبان سید اور شریف زادے تھے اور یہ محنت کش رذیل اور کمینوں سے گنے جاتے تھے۔
اس محلے میں ایک ٹوٹا ہوا مکان تھا۔ نیچے کے حصہ میں کباڑی کی دوکان تھی اور اوپر کوئی پندرہ بیس خان رہتے تھے۔ اوپر کی منزل کا بارجہ سٹرک کی جانب کھلتا تھا۔ یہ خان سرحد کے رہنے والے تھے اور سب کے سب سود پر روپیہ چلاتے تھے۔ یہ لوگ حد سے زیادہ گندے تھے محلے والے تک ان سے بہت ڈرتے تھے۔ ایک تو زیادہ تر لوگ ان کے قرضدارتھے، دوسرے ان کی نگاہ ایسی بری تھی کہ اکیلی عورت کی ہمت ان کے گھر کے سامنے سے ہو کر نکلنے کی نہ ہوتی تھی۔ دن بھر ان کے گھر میں تالا پڑا رہتا تھا۔ شام کو جب یہ لوگ واپس آتے تو ایک چھوٹی دیگ میں گوشت ابال لیتے۔ بازار سے نان لے کر اسی ایک برتن میں ہاتھ ڈال کر کھانا کھا لیتے اور چچوڑی ہوئی ہڈیاں نیچے سڑک پر پھینکتے جاتے۔ جب ان کے کھانے کا وقت ہوتا تو شام کو بہت سے کتے جمع ہو جاتے اور دیر تک غر غر بھوں بھوں کی آوازیں آتی رہتیں۔
اپنا پیٹ بھر کر یہ خان بہی کھاتے کھول کر بیٹھ جاتے۔ حساب کتاب کرنے لگتے۔ پھر کچھ اپنے کمبل بچھا کر اور حقہ لے کر سونے کو لیٹ جاتے اور چند منچلے شہر کی مٹر گشت کو نکل کھڑے ہوتے۔
نماز روزوں کا ایک سود کھانے والا خان بڑا پابند ہوتا ہے اور اپنے کو سچا مسلمان سمجھتا ہے حالانکہ اس کے مذہب نے سود لینے کو بالکل منع کیا ہے لیکن یہ سود کو نفع کہہ کر ہضم کر جاتاہے اور اپنے خدا کے حضور میں اپنی عبادت (پوجا) ایک رشوت کی شکل میں پیش کرتا رہتا ہے۔ آج کل رمضان تھا تو سب خان بھی روزہ رکھے ہوئے تھے اور افطار کے خیال سے جلدی گھر لوٹ آتے تھے۔ ان کا دل بہلانے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ اپنے چھجے پر کھڑے ہو کر سٹرک کی سیر کریں اور کوئی اکا دکا عورت گزرے تو اس پر آواز ے کسیں۔ ان کے سامنے کا جو گھر تھا اس کی کھڑکیاں تو کبھی کھلتی ہی نہ تھیں۔ کبھی کبھار روشنی سے پتہ چلتا تھا کہ پھر کوئی کرایہ دار آ گیا ہے۔ آخر کو ایک دن چھکڑے اور تانگے آتے اور گھر پھر خالی ہو جاتا۔
ایک دن اصغر صاحب گھر تلاش کرتے پھرتے تھے۔ اس گھر کو بھی دیکھا۔ اس وقت خان باہر گئے ہوئے تھے۔ گھر میں تالا پڑا ہوا تھا۔ اصغر صاحب نے گھر کو پسند کیا۔ خاص کر کرایہ کو۔ قلعی وغیرہ ہو جانے پر مع اپنی بیوی، بچے اور ماں کے گھر آ گئے۔ ان کی بیوی نسیمہ کو گھر بہت پسند آیا۔ اگر آس پاس کا محلہ گندہ اور بوسیدہ حالت میں ہے تو ہوا کرے لیکن بیس روپیہ میں اتنا بڑا مکان کہاں ملا جاتا تھا۔ اس نے گھر کو فوراً سجانے اور ٹھیک کرانے کا ارادہ کر لیا۔ شام کو وہ اپنی کھڑکی میں سے جھانک کر باہر سٹرک پر بچوں کی بھاگ دوڑ دیکھ رہی تھی کہ اس کی ساس بھی آ کھڑی ہوئی اور باہر دیکھنے لگیں اور ایک دم ’’اوئی‘‘ کہہ کر پیچھے ہٹ گئیں۔
’’اے دیکھ تو ان موٹے مسٹنڈے خانوں کو۔ پھوٹیں ان کے دیدے۔ ادھر دیکھ دیکھ کر کیسے ہنس رہے ہیں!‘‘
نسیمہ نے نگاہ موڑی دیکھا کہ کئی خان اپنے چھجے پر دانت نکالے اس کی طرف گھور رہے ہیں۔ نسیمہ کے ادھر دیکھتے ہی خانوں کی فوج میں ایک حرکت ہوئی اور وہ زور زور سے باتیں کرنے لگے۔ شکر تو یہ تھا کہ ان کا گھر ذرا ترچھا تھا لیکن پھر بھی سامنا خوب ہوتا تھا۔
’’اے دلہن کھڑکی بند کر کے ہٹ جاؤ۔ یہ کیسا بے پردہ گھر اصغر نے لیا ہے۔ میں تو یہاں دو روز تک نہیں ٹک سکتی۔‘‘
نسیمہ نے جواب نہیں دیا اور خانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر برابر دیکھتی رہی۔ ساس وہاں سے بڑبڑاتی ہوئی چلی گئیں، ’’مردوں کو کون کہے جب عورتیں ہی شرم نہ کریں۔‘‘
اصغر اور نسیمہ کی زندگی میں اب سے نہیں کچھ عرصہ سے رکاوٹ پیدا ہو گئی تھی۔ ان دونوں کی منگنی بچپن میں ہی ہو گئی تھی۔ جیسے جیسے بڑھتے گئے پردہ بھی بڑھتا گیا مگر آنکھ مچولی جیسے اپنے ہاں اکثر منگیتروں میں ہوتی ہے ان میں بھی ہوتی رہی، نوبت یہاں تک پہنچی ہوئی تھی کہ چھپ چھپ کر خط بھی لکھا کرتے تھے۔
اصغر جب کالج میں پڑھتا تھا تو نوجوانی کا زمانہ تھا۔ طبیعت میں جوش تھا اور ان لڑکوں کا ساتھی تھا جو ملک کی آزادی کا درددل میں رکھتے تھے۔ اس کی جوشیلی تقریریں اور ویاکھیاں انگریزوں کے ظلم، زمینداروں کی بے گار، کسانو ں کی مصیبت، سرمایہ داروں کی لوٹ اور مزدوروں کے سنگٹھن کے بارے میں بہت مشہور تھیں۔ بولنے والا غضب کا تھا، ودّیارتھیوں کی دنیا میں وہ ہر جگہ مشہور تھا۔ دیش کو اس سے بہت آشائیں تھیں اور نسیمہ کو اس سے بھی زیادہ۔ اصغر اپنی کالج کی زندگی کی سب باتیں نسیمہ کو لکھا رہتا اور جب وہ اخبار میں اس کا نام دیکھتی تو نسیمہ کا سر غرور سے اونچا ہو جاتا۔ اس کی کسی سہیلی کا بھائی یا منگیتر ایسا دیش بھگت نہیں تھا۔ نسیمہ نے بھی اپنے کو ایک نئی زندگی کے لئے تیار کرنا شروع کیا۔
عقلمند کو اشارہ کافی۔ ہوشیار لڑکی تھی وہ اپنے سماج کے روگوں کو اچھی طرح سمجھنے لگی اور ساتھ ہی ان کو سدھارنے کی تصویریں بھی اپنے دماغ میں کھینچنے لگی۔ دیش کو آزاد کرنے اور اس کو سکھ پہنچانے کے لئے وہ ہر قسم کا بلیدان کرنے کی تیاری کرنے لگی۔ آزادی کے نام سے اس کو عشق ہو گیا تھا۔ وہ اس پر اپنی جان بھی قربان کر سکتی تھی۔
جیسے ہی اصغر نے بی۔ اے کیا دونوں کی شادی ہوگئی اور ساتھ رہنے سے نسیمہ کو پتہ چلا کہ اصغر کی روشن خیالی ایک چھوٹے سے دائرے کے اندر بند ہے انہوں نے اتنا تو ضرور کیا کہ اپنے چند دوستوں سے بیوی کو ملوادیا تھا۔ ان لوگوں سے بات چیت کرنے کے بعد نسیمہ کی سوچ اور سمجھ میں زیادہ ترقی ہو گئی او ر اس کو خود آگے بڑھ کر کام کرنے کی خواہش ہوئی۔
ایک طرف تو نسیمہ کا شوق اور جوش بڑھ رہا تھا اور دوسری طرف اصغر آہستہ آہستہ ڈھیلے پڑتے جاتے تھے۔ کہتے کچھ تھے اور کرتے کچھ تھے۔ جس آسانی کے ساتھ دوستوں کے ساتھ بہانے بازی کر سکتے تھے، نسیمہ کے ساتھ نہیں کر پاتے تھے۔ کبھی کہتے تھے کہ ابھی تو ہمارے ہاں بچہ ہونے والا ہے! پھر یہ کہ بچہ چھوٹا ہے۔ کبھی کہا کہ وکالت ختم کر لینے دو، وکالت ختم بھی نہ کی تھی کہ نوکر ہو گئے۔ نوکری بھی کی تو سرکاری اور اپنے پرانے دوستوں سے الگ ہونے لگے۔
آخر کب تک نسیمہ سے اپنے دل کا حال چھپا سکتے تھے۔ باہر تو بیوی بچوں کا بہانہ تھا لیکن گھر میں کیاکہتے۔ نسیمہ بھی سمجھ گئی کہ یہ کرنے دھرنے والے تو کچھ ہیں نہیں۔ صرف باتیں بنانے کے ہیں۔ جب کبھی پرانے دوست اتفاق سے مل جاتے تو پھر اصغر صاحب وہی زبانی جمع خرچ شروع کر دیتے اور اپنی غیر سیاسی زندگی کو ایک مصیبت بنا کر دوستوں کے سامنے پیش کر دیتے اور سب یہی خیال کرتے کہ نسیمہ ہی ان کو بہکانے کی ذمہ دار ہے۔ میاں کی اس موقع پرستی سے دونوں کے دلوں میں گرہ پڑ گئی اور نسیمہ نے ایک خاموشی اختیار کر لی۔
اب تو اصغر کے دوست ڈھیلے ڈھالے قسم کے وکیل اور سرکاری ملازم تھے اور جن میں سی۔ آئی۔ ڈی والے بھی شامل تھے۔ نسیمہ کے پاس اکیلے بیٹھتے ہوئے انہیں ایک الجھن سی ہوتی تھی، کیونکہ اصغر کے دل میں ایک چور تھا اور جانتے تھے کہ اس چور کا پتہ نسیمہ کو خوب اچھی طرح معلوم ہے۔ نسیمہ کی ہر بات ان کو ایک طعنہ نظر آتی تھی۔ اس کی سرد خاموشی سے ان کو ایک جھنجھلاہٹ آ جاتی تھی اور ان کا دل چاہتا تھا کہ وہ نسیمہ کے خوبصورت چہرے پر ایک روز کا تھپڑ ماربیٹھیں۔ اگر نسیمہ ان سے لڑتی، باتیں سناتی اور طعنہ دے دے کر ان کے دل کو چھلنی کر دیتی تو اتنی تکلیف نہ ہوتی جتنی کہ اصغر کواس کی خاموش حقارت سے ہوتی تھی۔
افطار کا وقت قریب تھا۔ سب خان دریچہ میں موجود تھے۔ کچھ کھڑے تھے کچھ چائے پکا رہے تھے۔ نسیمہ بھی معہ اسلم کے اپنی کھڑکی میں سے جھانک رہی تھی۔ اب دو مہینے کے قریب ان کو اس گھر میں آئے ہوئے ہو گئے تھے، خان اس کی صورت اور لاپروائی کے عادی ہو چکے تھے۔ اب خواہ نسیمہ وہاں گھنٹوں گھڑی رہے خان اس کی طرف دھیان نہ دیتے تھے۔ اس وقت بھی ان کی آنکھیں اور کان قریب کی مسجد کی طرف لگے ہوئے تھے۔
افطار میں ابھی دیر باقی تھی کہ ایک بڈھا فقیر گلی میں سے نکل کر سڑک پر آیا۔ جس طرح وہ ٹٹولتا ہوا چل رہا تھا اس سے ظاہر تھا کہ وہ اندھا بھی ہے، اس کے سارے جسم میں رعشہ تھا۔ جس لکڑی کے سہارے وہ چل رہا تھا وہ ابھی مشکل سے تھام سکتا تھا۔ اس کی مٹھی میں کوئی چیز تھی جو اس کے ہاتھوں کے کانپنے کی وجہ سے دکھائی نہ دیتی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ بڑھ کر نسیمہ کے گھر کے سامنے ایک دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔
’’دیکھو اماں، اس فقیر کے ہاتھ میں کیا ہے؟‘‘
نسیمہ نے غور سے دیکھ کر کہا، ’’کچھ کھانے کی چیز معلوم ہوتی ہے۔‘‘
’’کھا کیوں نہیں لیتا؟‘‘
’’روزے سے ہوگا۔ شاید اذان کا انتظار کر رہا ہوگا‘‘
’’اماں تم روزہ نہیں رکھتیں؟‘‘
نسیمہ نے مسکرا کر بیٹے کی طرف دیکھا۔ ’’نہیں‘‘
’’ابا نے داروغہ جی سے کیوں کہا تھا کہ ان کا بھی روزہ ہے؟ کیا ابا نے جھوٹ بولا تھا؟‘‘
نسیمہ نے کچھ دیر سوچ کر جواب دیا، ’’تم خود ان سے پوچھ لینا۔‘‘
’’تو اماں تم روزہ کیوں نہیں رکھتیں؟‘‘
’’تم جو نہیں رکھتے!‘‘ نسیمہ نے اسلم کو چھیڑا۔
’’میں تو چھوٹا ہوں! دادی اماں کہتی ہیں کہ جو بڑا ہو جائے اور روزہ نہیں رکھے وہ دوزخ میں جاتا ہے۔ اماں دوزخ کیا ہوتی ہے؟‘‘
’’دوزخ! دوزخ وہ تمہارے سامنے تو ہے۔‘‘
’’کہاں؟‘‘ اسلم نے چاروں طرف گردن گھما کر دیکھا۔
’’وہ نیچے جہاں اندھا فقیر کھڑا ہے، جہاں وہ جلاہے رہتے ہیں اور جہاں رنگریز رہتا ہے اور لوہار بھی۔‘‘
’’دادی اماں تو کہتی ہیں دوزخ میں آگ ہوتی ہے۔‘‘
’’ہاں آگ ہوتی ہے! لیکن ایسی تھوڑی ہوتی ہے جیسے ہمارے چولہے ہیں۔ دوزخ کی آگ بیٹا بھوک کی آگ ہوتی ہے۔ اکثر وہاں کھانے کو ملتا ہی نہیں اور جو ملتا بھی ہے تو بہت برا اور تھوڑا سا۔ محنت بیو بہت کرنی پڑتی ہے اور کپڑے بھی دوزخ والوں کے پاس پھٹے پرانے پیوند لگے ہوتے ہیں۔ ان کے گھر بھی چھوٹے چھوٹے اندھیرے جوؤں اور کھٹملوں سے بھے ہوتے ہیں اور اسلم میاں دوزخ کے بچوں کے پاس کھلونے بھی نہیں ہوتے۔‘‘
’’کلو کے پاس بھی کوئی کھلونا نہیں ہے۔ اماں وہ دوزخ میں جو رہتا ہے۔‘‘
’’ہاں!‘‘
’’اور جنت؟‘‘
’’جنت یہ ہے جہاں ہم اور تم اور چچا اور خالہ جان رہتے ہیں۔ بڑا سا گھر، صاف ستھرا، کھانے کو مزے مزے کی چیزیں، مکھن، توس، پھل، انڈا، سالن، دودھ سب کچھ ہوتا ہے۔ بچوں کے پاس اچھے کپڑے اور کھیلنے کو اچھی سی موٹر ہوتی ہے۔‘‘
’’تو اماں سب لوگ جنت میں کیوں نہیں رہتے؟‘‘
’’اس لئے میری جان کہ جولوگ جنت میں رہتے ہیں، وہ ان لوگوں کو گھسنے نہیں دیتے اپنا کام تو کروا لیتے ہیں اور ان کو پھر دوزخ میں دھکا دے دیتے ہیں۔‘‘
’’اور وہ اندھے بھی ہو جاتے ہیں؟‘‘
’’ہاں بیٹا! دوزخ میں اندھے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔‘‘
’’تو وہ کھاتے کیسے ہیں؟‘‘
اتنے میں اذان کی آواز آئی اور گولہ چلا۔ خان چائے پر لپکے اور بڈھے فقیر نے جلیبیاں جلدی منہ کی طرف بڑھائیں۔ رعشہ اور بڑھ گیا۔ اس کے ہاتھ زیادہ کانپنے لگے اور سر بھی زور زور سے ہلنے لگا۔ بڑی مشکل سے ہاتھ منہ تک پہنچایا اور جب منہ کھول کر جلیبیاں منہ میں ڈالنے لگا تو رعشہ کی وجہ سے جلیبیاں ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر پڑیں۔ ساتھ بڈھا بھی جلدی سے گھٹنوں کے بل زمین پر گر پڑا اور اپنے کانپتے ہاتھوں سے جلیبیاں ڈھونڈھنے لگا۔ ادھر ایک کتا جلیبیوں پر لپکا اور جلدی سے جلیبیاں کھا گیا۔ دوسرے کتے بھی بڑھے۔ بڈھے نے ان کو ڈانٹا۔ کتے اس پر غرانے لگے۔ بڈھا نڈھال ہو کر زمین پر بیٹھ گیا اور بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔
خان جو ادھر دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے یہ سین دیکھ کر ایک قہقہہ لگایا اور بڈھے کی شکل و صورت اور بے چارگی پر ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے۔
چھوٹا اسلم سہم کر نسیمہ سے چمٹ گیا اور بولا، ’’اماں!‘‘
اس کے ننھے سے دماغ نے پہلی دفعہ دوزخ کی اصلی تصویر دیکھی تھی۔ نسیمہ نے خانوں کی طرف غصہ سے دیکھ کر کہا، ’’یہ کم بخت۔‘‘
اسلم نے پھر دبی ہوئی آواز میں کہا، ’’اماں۔‘‘
نسیمہ نے جھک کر اس کو گود میں اٹھا لیا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ملا کر جوش سے کہا، ’’میری جان! جب تم بڑے ہوگے تو اس دوزخ کا مٹانا تمہارا ہی کام ہوگا۔‘‘
’’اور ماں تم؟‘‘
’’میں بیٹا اب اس قید سے کہاں جا سکتی ہوں۔‘‘
’’کیوں؟ ابھی تو تم دادی کی طرح بڈھی نہیں ہوئیں کہ چل نہ سکو۔‘‘ ننھے سے اسلم نے ماں کی سنجیدگی کی نقل کرتے ہوئے جواب دیا، ’’تم بھی چلنا اماں!‘‘
’’اچھا میرے لال! تمہارے ساتھ ضرور چلوں گی۔‘‘
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |