افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر

افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر  (1935) 
by محمد اقبال

افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر، اٹھتے ہیں حجاب آخر

احوال محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا!
سوزو تب و تاب اول، سوزو تب و تاب آخر!

میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر اُمم کیا ہے
شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر

میخانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اول، دیتے ہیں شراب آخر

کیا دبدبۂ نادر، کیا شوکتِ تیموری!
ہوجاتے ہیں سب دفتر غرقِ مئے ناب آخر

خلوت کی گھڑی گزری، جلوت کی گھڑی آئی
چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوشِ سحاب آخر!

تھا ضبط بہت مشکل اس سیلِ معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب آخر

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse