اللہ کا بڑا فضل ہے

اللہ کا بڑا فضل ہے (1954)
by سعادت حسن منٹو
319927اللہ کا بڑا فضل ہے1954سعادت حسن منٹو

اللہ کا بڑا فضل ہے صاحبان۔۔۔ ایک وہ زمانہ جہالت تھا کہ جگہ جگہ کچہریاں تھیں۔ ہائی کورٹیں تھیں۔ تھانے تھے، چوکیاں تھیں۔ جیل خانے تھے، قیدیوں سے بھرے ہوئے کلب تھے جن میں جوا چلتا تھا، شراب اڑتی تھی۔ ناچ گھر تھے، سینما تھے، آرٹ گیلریاں تھیں اور کیا کیا خرافات نہ تھیں۔۔۔ اب تو اللہ کا بڑا فضل ہے صاحبان، کوئی شاعر دیکھنے میں آتا ہے نہ موسیقار۔۔۔ لا حول و لا۔ یہ موسیقی بھی ایک لعنتوں کی لعنت تھی۔۔۔ یعنی آخر گانا بھی انسانوں کا کام ہے۔۔۔؟ تنبورہ لے کر بیٹھے ہیں اور گلا پھاڑ رہے ہیں۔ صاحب، کیا گا رہے ہیں، درباری کا نہڑہ، مالکوس، میاں کی ٹوڈی، اڈا نہ اور جانے کیا کیا بکواس۔۔۔ کوئی ان سے پوچھے کہ جناب آخر ان راگ راگنیوں سے انسانیت کو کیا فائدہ پہنچتا ہے۔ آپ کوئی ایسا کام کیجئے جس سے آپ کی عاقبت سنورے، آپ کو کچھ ثواب پہنچے۔ قبر کا عذاب کم ہو۔‘‘

اللہ کا بڑا فضل ہے صاحبان۔۔۔ موسیقی کے علاوہ اور جتنی لعنتیں تھیں ان کا اب نام و نشان تک نہیں اور خدا نے چاہا تو آہستہ آہستہ یہ زندگی کی لعنت بھی دور ہو جائے گی۔۔۔ میں نے شاعر کا ذکر کیا تھا۔۔۔ عجیب و غریب چیز تھی یہ بھی۔۔۔ خدا کا خیال، نہ اس کے رسول کی فکر، بس معشوقوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ کوئی ریحانہ کے گیت گا رہا ہے، کوئی سلمیٰ کے۔۔۔ لا حول و لا، زلفوں کی تعریف ہو رہی ہے، کبھی گالوں کی۔۔۔ وصل کے خواب دیکھے جا رہے ہیں۔۔۔ کتنے گندے خیالات کے تھے یہ لوگ، ہائے عورت، وائے عورت۔۔۔ لیکن اب اللہ کا بڑا فضل ہے صاحبان! اول تو عورتیں ہی کم ہو گئی ہیں اور جو ہیں پڑی گھر کی چاردیواری میں محفوظ ہیں۔۔۔ جب سے یہ خطہ زمین شاعروں کے وجود سے پاک ہوا ہے فضا بالکل صاف اور شفاف ہو گئی ہے۔

میں نے آپ کو بتایا نہیں۔ شاعری کے آخری دور میں کچھ شاعر ایسے بھی پیدا ہو گئے تھے جو معشوقوں کے بجائے مزدوروں پر شعر کہتے تھے۔ زلفوں اور عارضوں کی جگہ ہتھوڑوں اور درانتیوں کی تعریف کرتے تھے۔۔۔ اللہ کا بڑا فضل ہے صاحبان کہ ان مزدوروں سے نجات ملی۔ کمبخت انقلاب چاہتے تھے، سنا آپ نے؟ تختہ الٹنا چاہتے تھے حکومت کا، نظام معاشرت کا، سرمایہ داری کا اور نعوذ باللہ مذہب کا۔ اللہ کا بڑا فضل ہے کہ ان شیطانوں سے ہم انسانوں کو نجات ملی، عوام بہت گمراہ ہو گئے تھے۔ اپنے حقوق کا ناجائز مطالبہ کرنے لگے تھے، جھنڈے ہاتھ میں لے کر لادینی کی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔۔۔ خدا کا شکر ہے کہ اب ان میں سے ایک بھی ہمارے درمیان موجود نہیں اور لاکھ لاکھ شکر ہے پروردگار کا، اب ہم پر ملاؤں کی حکومت ہے اور ہر جمعرات ہم حلوے سے ان کی ضیافت کرتے ہیں۔

آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ اس زمانے میں حلوے کا نام و نشان تک اڑ گیا تھا۔۔۔ مسجدوں میں حجروں کے اندر بیچارے ملا، خدا انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، پڑے حلوے کو ترستے تھے۔ ان کی لمبی لمبی نورانی داڑھیوں کا ایک ایک بال شیطانی استروں کی موت کی دعائیں مانگتا تھا۔ اللہ کا بڑا فضل ہے کہ یہ دعائیں قبول ہوئیں۔ اب آپ اس کونے سے اس کونے تک چلے جائیے۔ ساری دکانیں چھان ماریئے، ایک استرہ بھی آپ کو نہیں ملے گا۔ البتہ حلوہ جو کہ ہمارے رہنما ملاؤں کی مذہبی خوراک ہے، آپ کو اب ہر جگہ اور ہر مقدار میں دستیاب ہو سکتا ہے۔

اللہ کا بڑا فضل ہے۔۔۔ اب کوئی ٹھمری، دا درا نہیں گاتا، فلمی دھنیں بھی مرکھپ چکی ہیں۔ موسیقی کا ایسا جنازہ نکالا ہے اور اس طور پر اسے زمین میں دفن کیا گیا ہے کہ اب کوئی مسیحا اسے دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا۔ کتنی بڑی لعنت تھی یہ موسیقی۔ لوگ کہتے تھے یہ آرٹ ہے، کیسا آرٹ، کہاں کا آرٹ، یہ بھی کوئی آرٹ ہے کہ آپ نے کوئی گانا سنا اور دنیا کے دکھ درد تھوڑی دیر کے لئے بھول گئے۔ کوئی گیت سنا اور دل آپ کا بلیوں اچھلنے لگا۔۔۔ حسن و عشق کی دنیا میں جا پہنچے۔۔۔ لا حول و لا۔ آرٹ کبھی ایسا گمراہ کن نہیں ہو سکتا۔ گھونگھٹ کے پٹ کھول۔۔۔ پائل باجی چھنن، چھنن۔۔۔ بابل بنہر مورا چھوٹو جائے۔۔۔ رتیاں کہاں گوائیں رے۔۔۔ کوئی شرافت ہے ان بولوں میں۔ اللہ کا بڑا فضل ہے کہ اب ایسی خرافات موجود نہیں۔ الحمد للہ قوالی ہے، سنیئے اور سر دھنئے۔ حال کھیلئے، ہو حق کے نعرے لگایئے اور ثواب حاصل کیجئے۔

مصوری بھی کچھ کم لعنت نہیں تھی۔ تصویریں بنتی تھیں۔ برہنہ نیم برہنہ۔ مصور اپنی پوری قوت تصور حسن کی تخلیق میں صرف کر دیتے تھے، لیکن یہ کفر تھا۔ تخلیق صرف خدا کا کام ہے اس کے بندوں کا نہیں اور پھر حسن کی تخلیق، یہ تو گناہ کبیرہ تھا۔ اللہ کا بڑا فضل ہے کہ ہمارے درمیان آج ایک بھی مصور موجود نہیں، جو تھے ان کی انگلیاں قلم کر دی گئیں، تاکہ وہ اپنی شیطانی حرکت سے باز رہیں۔۔۔ اب یہ عالم ہے کہ اس سرزمین پر آپ کو ایک سیدھی لکیر بھی کہیں دیکھنے میں نہیں ملے گی۔ ایک آدمی بھی ایسا موجود نہیں جو غروب آفتاب کے حسین منظر کو دیکھ کر اسے کاغذ یا کپڑے پر منتقل کرنے کا خیال اپنے دل و دماغ میں لائے۔ سچ پوچھئے تو اب وہ خوفناک حس ہی مٹ چکی ہے جسے طلب حسن کہتے ہیں، تخلیق حسن کی بات تو الگ رہی۔

ننگی عورتوں کی تصویریں بنائی جاتی تھیں، ننگی عورتوں کے مجسمے تراشے جاتے تھے۔ اسی پر موقوف نہیں، ان کو بڑے پیار سے عجائب خانوں میں سجایا جاتا تھا۔ ان کے بنانے والوں کو انعام و اکرام دیے جاتے تھے۔۔۔ جی ہاں، انعام و اکرام۔۔۔ وظیفے دیے جاتے تھے، القاب عنایت کئے جاتے تھے کہ واہ مصور صاحب، آپ نے ننگی عورت کی تصویر کیا خوب کھینچی ہے۔۔۔ یہ پستان۔۔۔ لا حول و لا، میں نے کس چیز کا نام لے لیا۔ معاف کیجئے، میں ابھی حاضر ہوا۔۔۔ ذرا کلی کر آؤں۔۔۔ کلی کر آیا، لیکن منہ کا ذائقہ ابھی تک خراب ہے۔ معاف کر دیجئے گامجھے، سہواً میرے منہ سے ایک غلیظ چیز کا نام نکل گیا، لیکن آپ تو اس کا مطلب نہیں سمجھے ہوں گے، کیونکہ جتنے گندے اور خراب لفظ تھے سب کے سب لغات میں سے نکال دیے گئے ہیں۔

میں کیا غرض کر رہا تھا۔۔۔؟ جی ہاں۔۔۔ اللہ کا بڑا فضل ہے کہ اب ایسا کوئی عجائب خانہ موجود نہیں جہاں ننگی تصویریں یا صرف تصویریں جنہیں آرٹ کا نمونہ کہا جاتا تھا، دیکھنے میں آئیں۔ ایسے جتنے عجائب خانے تھے ان کو فوراً ہی ڈھا دیا گیا اور ملبہ دریاؤں میں ڈال دیا گیا، تاکہ ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہے۔

عریانی کی وبا صرف تصویروں اور مجسموں ہی تک محدود نہ تھی۔۔۔ شعروں اور افسانوں میں بھی پھیلی ہوئی تھی، وہ غزل اور وہ افسانہ بہت کامیاب متصور کیا جاتا تھا جس میں عورت اور مرد کے جسمانی رشتے پر بحث کی گئی ہو۔ کس قدر مریضانہ ذہنیت کے تھے وہ لوگ۔۔۔ روحانیت کے بارے میں کبھی کچھ سوچتے ہی نہیں تھے۔ زمین کی باتیں کرتے تھے، اوپر سات آسمان پڑے ہیں، اس کا علم ہی نہیں تھا ان کو۔۔۔ جسم کی بھوک کا سوچتے تھے، روح کی بھوک کیا ہوتی ہے، ان کے فلک کو بھی اس کا پتہ نہیں تھا۔۔۔ اللہ کا بڑا فضل ہے کہ جسم کی بھوک اب بالکل مٹ چکی ہے۔۔۔ اور اللہ کا فضل شامل حال رہا تو صرف روح ہی روح رہ جائے گی اور ہم فانی انسانوں کا جسم سرے سے غائب ہو جائے گا۔۔۔ خس کم جہاں پاک!

کوئی زمانہ تھا کہ سیکڑوں پرچے، ادب کے نام پر شائع ہوتے تھے۔ ان میں لوگوں کا اخلاق بگاڑنے والی ہزاروں تحریریں آئے دن چھپتی تھیں۔۔۔ سمجھ میں نہیں آتایہ ادب کیا بلا تھی۔ ادب آداب سکھانے کی کوئی چیز ہوتی تو ٹھیک تھا۔ جو کہانیاں، افسانے، مضمون، نظمیں، غزلیں، ادب کا نام لے کر چھاپی جاتی تھیں، ان میں نہ تو چھوٹوں کو بڑوں کا لحاظ کرنے کی تعلیم دی جاتی تھی اور نہ مغرب زدہ لوگوں کو ڈھیلا لگانے کی ترکیب ہی بتائی جاتی تھی۔ یہ تو ایک بہت بڑا پاکیزہ فن ہے کہ آتے آتے ہی آتا ہے لیکن اتنا بھی نہ تھا کہ عوام کو داڑھی رکھنے اور لبیں کتروانے ہی کی طرف مائل کیا جاتا۔

ادب ان نااہل ہاتھوں میں بس یہ رہ گیا تھا۔۔۔ عورت اور مرد کے جنسی مسائل۔۔۔ لا حول و لا قوۃ۔ انسان کی نفسیات، نعوذ باللہ یعنی ہم فانی انسانوں کی غیر فانی روح تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ حسن و عشق کی داستانیں، خوبصورت مناظر کی تعریفیں، بڑے ہی خوشنما الفاظ میں۔۔۔ کوئی شام اودھ کی مدح سرائی کر رہا ہے کوئی صبح بنارس کی، قوس قزح کے رنگوں کو کاغذ پر اتارا جا رہا ہے۔ پھولوں، بلبلوں، کوئلوں اور چڑیوں پر ہزاروں صفحے کالے کئے جا رہے ہیں، لیکن صاحبان، سوال تو یہ ہے۔۔۔ تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا۔۔۔ اللہ کا بڑا فضل ہے کہ اب کوئی پھول رہا ہے نہ بلبل۔۔۔ پھولوں کا ناس مارا گیا، تو بلبلیں خود بخود دفان ہو گئیں۔۔۔ اسی طرح اور بہت سی واہیات چیزیں آہستہ آہستہ اس سرزمین سے جہاں ان کے سینگ سمائے چلی گئی ہیں۔۔۔

میں ادب کے متعلق عرض کر رہا تھا۔ ہاں صاحب میں نے آپ کو بتایا ہی نہیں آخر میں ادب کی ایک بالکل ہی نئی قسم پیدا ہو گئی تھی۔۔۔ اس وقت لوگ کہتے تھے یہ حقیقی ادب ہے، یعنی جو کچھ ہم دیکھتے ہیں بیان کر دیتے ہیں۔۔۔ غضب خدا کا۔۔۔ غور فرمایئے اگر آپ کو اس وقت خدا نخواستہ چھینک آ جائے، تو مجھے کیا حق پہنچتا ہے کہ میں اس افسوسناک واقعے کو قلم بند کردوں اور پھر ادب کے نام سے اسے دوسروں کے سامنے پیش کروں، چھینک آنا تھی، اب اس حادثے کی تفصیلات میں جانے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔ اول تو یہ بات ہی سمجھ میں نہیں آ سکتی کہ چھینک کے نفسیاتی پہلو کیا ہو سکتے ہیں؟ فرمایئے ہو سکتے ہیں؟ ہر چیز اسی ذات پاک کی طرف سے آتی ہے اور اسی کی طرف واپس چلی جاتی ہے۔

اللہ کا بڑا فضل ہے کہ اس نام نہاد ادب اور ان برخود غلط ادیبوں کا اب نام و نشان نہیں رہا۔ کوئی رسالہ چھپتا ہے نہ جریدہ، صحیفہ۔۔۔ نغوذ باللہ۔۔۔ اس زمانے میں لوگوں کو اتنی جرأت تھی کہ اپنے ذلیل پرچوں کو صحیفے کہتے تھے اور خود کو صحافی۔۔۔ اب تو صاحب کوئی اخبار بھی نظر نہیں آتا۔ حاکم لوگ البتہ کبھی کبھار جب ضرورت پڑے تو ہماری معلومات کے لئے چند سطریں شائع کر دیتے ہیں۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ اب صرف ایک اخبار حکومت کی طرف سے چھپتا ہے اور آپ جانتے ہی ہیں سال میں ایک آدھ بار جب کہ اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

خبریں ہوتی ہی کہاں ہیں، اب کوئی ایسی بات ہونے ہی نہیں دی جاتی جو لوگ سنیں اور آپس میں چہ میگوئیاں کریں۔ وہ زمانہ تھا، لوگ بیکار ہوٹلوں اور گھروں میں یہ لمبے لمبے اخبار لئے گھنٹوں بحث کر رہے ہیں، کون سی پارٹی برسراقتدار ہونی چا ہیئے، کس لیڈر کو ووٹ دینے چاہئیں۔ شہر کی صفائی کا انتظام ٹھیک نہیں۔ آرٹ اسکول کھلنے چاہئیں۔ عورتوں کے مساوی حقوق کا مطالبہ درست ہے یا نا درست اور خدا معلوم کیا کیا خرافات۔ اللہ کا بڑا فضل ہے کہ ہماری دنیا ایسے ہنگاموں سے پاک ہے۔ لوگ کھاتے ہیں، پیتے ہیں، اللہ کو یاد کرتے ہیں اور سو جاتے ہیں۔ کسی کی برائی میں نہ کسی کی اچھائی میں۔

صاحبان میں سائنس کا ذکر کرنا تو بھول ہی گیا۔ ۔ یہ ادب کی بھی خالہ تھی۔ خدا محفوظ رکھے اس بلا سے، نغوذ باللہ اس فانی دنیا کو جنت بنانے کی فکر میں تھے، یہ لوگ جو خود کو سائنس داں کہتے تھے۔ ملعون کہیں کے۔ خدا کے مقابلے میں تخلیق کے دعوے باندھتے تھے۔ ہم مصنوعی سورج بنائیں گے جو رات کو تمام دنیا روشن کر دے گا۔ ہم جب چاہیں گے بادلوں سے بارش برسا لیا کریں گے۔۔۔ ذرا غور فرمایئے، نمرود کی خدائی تھی، جی اور کیا؟ سرطان جیسی لاعلاج اور مہلک بیماری کا علاج ڈھونڈا جا رہا ہے، یعنی ملک الموت کے ساتھ پنجہ لڑانے کی سعی فرمائی جا رہی ہے، ایک صاحب ہیں، وہ دوربین لئے بیٹھے ہیں اور دعوے کر رہے ہیں کہ وہ چاند تک پہنچ جائیں گے۔ ایک سر پھرے بوتلوں اور مرتبانوں میں بچے پیدا کر رہے ہیں۔ خدا کا خوف ہی نہیں رہا تھا پاجیوں کو۔۔۔ اللہ کا بڑا فضل ہے کہ یہ سب شیطان ہمارے درمیان سے اٹھ گئے۔

اب چاروں طرف سکون ہے۔ کوئی ہنگامہ نہیں، کوئی واردات نہیں، کوئی شاعر نہیں، کوئی مصور نہیں، زندگی یوں گزر رہی ہے، جیسے گزر ہی نہیں رہی، قلب کے لئے یہ کتنی اطمینان دہ چیز ہے، لوگ پیدا ہوتے ہیں، مر جاتے ہیں، کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ زندگی سے لے کر موت تک ایک بے آواز، صاف شفاف دھارا بہا چلا جا رہا ہے۔ کوئی بھنور ہے نہ بلبلہ، لوگ دونوں کناروں کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی ٹھنڈی ریت پر لمبی تانے سو رہے ہیں اور کیوں صاحبان! کیا جی نہیں چاہتا کہ اسی طرح سوئے رہیں، حتیٰ کہ جنت میں دودھ کی نہروں کے کنارے ہماری آنکھیں کھلیں۔۔۔ اوپر دیکھیں تو انگور کے خوشے جھک کر ہمارے منہ میں آ جائیں اور ہم پھر سو جائیں۔

یہ۔۔۔ یہ اخبار کہاں سے آیا۔۔۔؟ اوہ ہم سو گئے تھے۔۔۔ سرکاری ڈاکیہ پھینک گیا ہو گا۔۔۔ بڑی دیر کے بعد آیا ہے پرچہ۔۔۔ دیکھیں کیا لکھا ہے۔۔۔ وہ زمانہ برا تھا صاحبان لیکن ایک بات تھی۔۔۔ سنا ہے کہ اخباروں کی لکھائی چھپائی بہت ہی خوبصورت ہوتی تھی۔۔۔ لیکن خوبصورتی کا کیا ہے۔۔۔ معاذ اللہ۔۔۔ یہ کیا؟

ٹھہریئے ٹھہریئے۔۔۔ لیکن میری نظریں تو دھوکا نہیں دے رہیں؟ جی نہیں، صاف پڑھا جا رہا ہے۔۔۔ حکومت شش و پنج میں۔۔۔ مملکت میں ایک آدمی گرفتار کیا گیا ہے۔۔۔ گرفتار۔۔۔؟ گرفتار کیا گیا ہے۔۔۔؟ الزام یہ ہے کہ وہ گلی گلی اور کوچے کوچے یہ شور مچاتا پھرتا تھا کہ میں اس مملکت میں نہیں رہنا چاہتا جہاں خدا تو ہے پر شیطان نہیں ہے۔۔۔ نعوذ باللہ۔۔۔ نامہ نگار خصوصی کا بیان ہے کہ جب ملزم کو حکام بالا کے حضور پیش کیا گیا تو اس نے چلانا شروع کر دیا، ’’یہاں جلدی شیطان بلاؤ ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گا۔۔۔‘‘ نامہ نگار خصوصی یہ بھی بیان کرتا ہے کہ ملزم نے اپنی صفائی میں یہ انکشاف کیا کہ اس کے قبضے میں حضرت علامہ اقبال نور اللہ مرقدہ، کا شعر موجود ہے۔ شعر فارسی زبان کا ہے جسے ہم یہاں درج کرتے ہیں،

مزی اندر جہان کور ذوقے
کہ یزداں دارد و شیطاں ندارد

لیکن یہ شعر علامہ مرحوم کے مطبوعہ کلام میں کہیں بھی موجود نہیں، حالانکہ وہ حکومت کی نگرانی میں چھاپا جاتا ہے۔۔۔ بالکل درست ہے۔۔۔ ملزم صریحاً چال بازی کر رہا ہے۔۔۔ آگے کیا لکھا ہے۔۔۔ جی میں پڑھتا ہوں۔۔۔ الزام کی نوعیت بہت سنگین ہے، لیکن حکومت سخت شش و پنج میں ہے کہ ملزم پر مقدمہ کیسے چلائے، کیونکہ کوئی عدالت ہی موجود نہیں۔۔۔ مقدمے کی سماعت ہو تو سزا ملنے کی صورت میں اسے رکھا کہاں جائے کیونکہ مملکت میں ایک بھی جیل موجود نہیں۔۔۔ لیکن سنا ہے کہ حکومت فوراً ہی ایک حوالات، ایک عدالت اور ایک جیل تعمیر کرا رہی ہے۔

اللہ کا بڑا فضل ہے صاحبان کہ حکومت نے معاملے کی اہمیت اور نزاکت کو سمجھ لیا ہے۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.