الٹا اثر یہ شکوۂ بیداد سے ہوا
الٹا اثر یہ شکوۂ بیداد سے ہوا
وہ اور بھی خفا مری فریاد سے ہوا
مجنوں ہی سے ہوا نہ وہ فرہادؔ سے ہوا
جو کام عشق میں دل ناشاد سے ہوا
دشمن کی کیا مجال کہ مجھ کو برا کہے
جو کچھ ہوا حضور کے ارشاد سے ہوا
اس دشمن وفا کا تصور ہے پھر مدام
مجبور میں تو اس دل ناشاد سے ہوا
اللہ ہی اب کے جان بچائے تو بچ سکے
پھر عشق مجھ کو اک ستم ایجاد سے ہوا
مرنے کے بعد بھی نہ گئی عشق کی خلش
یہ عقدہ حل نہ خنجر جلاد سے ہوا
اتنا تو بے قرار ہوا تھا نہ دل کبھی
جتنا کہ مضطر آج تری یاد سے ہوا
جو کام دوستوں سے نہ الفت میں ہو سکا
ہاجرؔ وہ کام غیر کی امداد سے ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |