امرود اور ملا جی

امرود اور ملا جی
by لطیف فاروقی
323459امرود اور ملا جیلطیف فاروقی

کسی قصبے میں ایک تھا امرود
بیسوں میں وہ نیک تھا امرود
پڑھنے جاتا تھا وہ نماز وہاں
آدمی اک نظر نہ آئے جہاں
خوف اس کو ہمیشہ رہتا تھا
آدمی کوئی مجھ کو کھا لے گا
شوق بولا کہ ایک دن جاؤ
کسی مسجد میں جا نماز پڑھو
چھوٹی سی مسجد اک قریب ہی تھی
تھے وہاں ڈٹ کے بیٹھے ملا جی
چپکے چپکے خدا کی لے کر آس
چل کے جا بیٹھا جوتیوں کے پاس
جوں ہی سجدے میں اس نے رکھا سر
آئے ملا جی اس طرف اٹھ کر
ایسے ملا ندیدے ہوتے ہیں
دیکھ کے کھانے ہوش کھوتے ہیں
حلوہ کھاتے ہیں نان کھاتے ہیں
جب ملے کچھ نہ جان کھاتے ہیں

جھپٹے اس پر پکڑ لیا امرود
چیخا چلایا رو پڑا امرود
کہا امرود نے کہ ملا جی
ہو اگر آج میری جاں بخشی
پھل کھلاؤں گا آپ کو ایسا
اچھا مجھ سے ہے ذائقہ جس کا
پھر کہا یہ کہ میرے ساتھ آئیں
جس جگہ میں کہوں ٹھہر جائیں
اک دکاں کے قریب آ کے کہا
آئیے دیکھیے ہے کیسا مزا
کیلا جلدی سے اک اٹھا لیجے
اور مسجد میں چل کے کھا لیجئے
مالک اس کا وہاں نہ تھا موجود
ملا موجود تھا خدا موجود
کیلا مسجد کے پاس لے کے چلے
چلتے چلتے وہ آخر آ پہنچے
کہا امرود نے نکالیے آپ
چھیل کر کیلا اس کو کھائیے آپ
لگے مسجد میں جانے جب کھا کر
آ گیا ان کا پاؤں چھلکے پر
وائے قسمت کہ آپ ایسے گرے
ایک گھنٹے سے پہلے اٹھ نہ سکے
موقع پاتے ہی چل دیا امرود
دے کے ملا کو جل گیا امرود
حرص کا خوب ہی مزا پایا
دودھ ان کو چھٹی کا یاد آیا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.