املا اور صحت الفاظ

املا اور صحت الفاظ
by شبلی نعمانی
319437املا اور صحت الفاظشبلی نعمانی

ایک معزز اور محترم بزرگ نے جو ہندوسان کے مشہور صاحب قلم اور معاملات ملکی میں بڑے اہل الرائے ہیں، ہم کو ایک نہایت طولانی خط لکھا ہے، جس میں سخت افسوس کے ساتھ اس بات کی شکایت کی ہے کہ نااہلوں کی وجہ سے اردو زبان روز بہ روز بگڑتی جاتی ہے ، اور اگر اس کا تدارک نہیں کیا جاتا تو ہماری قومی زبان برباد ہوئی جاتی ہے۔ ان کے خاص الفاظ یہ ہیں، ’’آج کل میں دیکھتا ہوں کہ اردو کے اخبار اور رسالے جو انگریزی پڑھے ہوئے مضامین نگار لوگ نکال رہے ہیں، یا اخباروں وغیرہ میں مضامین لکھتے ہیں، ان غریبوں کے ہاتھ سے بے چاری اردو کی ایسی مٹی خراب ہونی شروع ہوئی کہ توبہ! مضامین کا عمدہ ہونا دوسری بات ہے، مگر زبان یعنی الفاظ اور املا کی غلطیاں ایسی ہوتی ہیں کہ میرا تو اکثر ان کے پڑھنے تک سے دل نفرت کرتا ہے۔ یہ حالت خود انہی کے لئے قابل افسوس نہیں ہے بلکہ ایسی غلط عبارتوں اور لفظوں کے شیوع سے آئندہ بہت ہی برے نتائج پیدا ہوں گے۔ لاہور کے ایک غیر انگریزی داں پرانے اخبار نویس نے جو بے چارہ سوائے عربی کے صرف معمولی سی فارسی پڑھا ہوا تھا، لفظ جناب کا مؤنث جنابہ بنایا، اب میں دیکھتا ہوں کہ ان کی بدولت یہ جنابت ایسی بری طرح پھیلتی جاتی ہے کہ توبہ۔ لفظ نذر اور نظر میں فرق نہیں کیا جاتا۔ بجائے نافیہ کے منفی، میرے خیال میں غلط ہے، اس کا استعمال برابر ہو رہا ہے۔ موافقت کے مقابلے میں لفظ نفاق لکھا جا رہا ہے، اور جو کوئی کسی امر میں رائے مخالف رکھتا ہو، اس کو اس طرح پر خواہ مخواہ منافق کہا جاتا ہے۔ آپ فلاں امر کے لئے مجاز نہیں ہیں، اس کی جگہ لکھتے ہیں کہ آپ کو اس بات کا کیا مجاز ہے۔ محاذی کی جگہ محاذ اور ایک بڑی ضخیم کتاب کے نویسندہ صاحب نے بجائے لفط منادی یعنی واعظ کے مناد بر وزن قناد و شداد اختراع کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ آپ کی خدمت میں یہ شکایت اس لئے لکھتا ہوں کہ آپ کے اہتمام سے (جو شاید برائے نام ہے) رسالہ کالج میگزین شائع ہوتا ہے، اس میں ایسی ایسی فاش غلطیاں ہوتی ہیں کہ جن کودیکھ کر بہت رنج ہوتا ہے اورغضب یہ ہے کہ جب کہ اس پر لکھا جاتا ہے کہ مولانا محمد شبلی صاحب کے اہتمام سے شائع ہوا، توغور فرمائیے کہ بے چارے انگریزی خواں اردو نویسوں کے لئے تو گمراہ ہو جانے کے لئے ایک بڑی دلیل ہو جائے گی، جب کوئی ان کوسمجھانا چاہے گا تو وہ یہی جواب دیں گے کہ فلاں مقام پر ہم نے ایساہی لکھا دیکھا ہے اورچونکہ وہ رسالہ جناب مولانا جیسے مستند شخص کے اہتمام سے شائع ہوتا ہے، تویہ لفظ یا املا وغیرہ وغیرہ غلط کس طرح ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ہمارے ایک عالی کرم فرما مصنف و مضمون نگار نے کہیں ہمارے عرفی کا یہ شعر پڑھ لیا ہوگا۔ از نقش و نگار در و دیوار شکستہ آثار پدید است صنادیدِ عجم را یا جناب سید صاحب کی کتاب کا نام آثار الصنادید سن لیا ہوگا ، اب بے تکلف آثار قدیمہ کی نسبت لفظ صنادید لکھنا شروع کر دیا اور ان کی دیکھا دیکھی اور لوگ بھی غلطی میں پڑتے جاتے ہیں۔ ایک رسالہ آج کل بہار سے بنام اصلاح جاری ہوا ہے، اس کے ٹائٹل پیج پر جو ایک عربی کا حصہ ہے وہ قابل ملاحظہ ہے۔ اگرآپ اخبارعلی گڑھ کا ایک حصہ واسطے اصلاح ایسے اغلاط کے مخصوص فرما کر الفاظ و املاہائےغلط و محاورات غیر صحیح کی تصحیح فرمایا کریں تو دنیا پر خصوصاً ہماری زبان اردو پر بڑا احسان ہو، ورنہ چند ہی سال میں ایک ’’گڈڈامی‘‘ اردو پیدا ہوگی کہ باید و شاید۔ ’’فانظر الی الابل کیف خلقت۔‘‘ یہ ضروری نہیں کہ کاتب مضمون کا نام لے کر اخبار میں نکتہ چینی کی جائے، بلکہ صرف اشارے کے طور پر لکھا جا سکتا ہے اور جب کہ ایک آدھ کالم اسی کام کے لئے وقف کیا جائے گا تو لوگ خوہ مخواہ ناراض بھی نہ ہوں گے کیونکہ اس عام طریق سے کسی کی تضحیک اور توہین مقصود نہ ہوگی البتہ محض اصلاح زبان، زیادہ کہاں تک سامعہ خراشی کروں۔‘‘ سب سے پہلے میں اپنے محترم بزرگ کی خدمت میں یہ گزارش کرتا ہوں کہ میں سال بھر سے کالج میگزین کا ایڈیٹر نہیں ہوں، اس لئے اس کی غلطیوں کا (اگر واقع میں ہیں) میں ذمہ دار نہیں۔ اصل بحث کی نسبت اس امر سے انکار نہیں ہو سکتا کہ اردو زبان میں بہت سے ایسے الفاظ داخل ہوگئے اور ہوتے جاتے ہیں جو لغت اور ترکیب کے لحاظ سے غلط ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا یہ عام قاعدہ قرار پا سکتا ہے یا نہیں کہ جو لفظ اصل لغت کے لحاظ سے غلط ہے، اس کا استعمال بھی عموما ًغلط ہے۔ فارسی زبان میں جب عربی کا اختلاط ہوا توعربی کے سیکڑوں الفاظ اور جملے شامل ہوگئے، فارسی کے شعرا اور نثار عموما ًعلوم عربیہ میں نہایت مہارت رکھتے تھے، لیکن عربی الفاظ جو انہوں نے برتے، اس قدرغلط برتے کہ آج کم مایہ اردو داں اس سے زیادہ غلطی نہیں کرتے، تاہم وہی فارسی آج تک مستند اور فصیح اور شیریں سمجھی جاتی ہے۔ بہ سخن ہای دروغ تو تسلی شد و رفت میلی بہ نشست و قراں خواند و بجنباندہی سر قاآنی حمام شریف شد مزیب ولہ شاخ بنفشہ چون بروز لفین دوست گشت منوچھری قوم اشرب الصبوح یا ایہا النائمین منو چھری در و بسیر و بیندیش کاین خجستہ نہاد عرفی سر و من طرح نو انداختہ یعنی چہ حزیں اصل حقیقت یہ ہے کہ زبان کی ابتدا عوام سے ہوتی ہے اور یہ گروہ صحت الفاظ سے بالکل بے خبر ہوتا ہے، خواص اسی زبان کو لے کر کاٹ چھانٹ کر اصلاح کرتے ہیں، اصلاح میں وہ بہت سے الفاظ کو اس طرح چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ کبھی تو یہ ہوتی ہے کہ وہ غلط الفاظ اس قدر عام استعمال میں رواج پا چکے ہوتے ہیں کہ صحت کے ساتھ بولے جائیں ، توعام لوگوں کی سمجھ میں نہ آئیں۔ اور کبھی یہ کہ یہ امر زبان کی عزت اور خود مختاری کی دلیل سمجھی جاتی ہے کہ دوسری زبان کے الفاظ اس میں آئیں تو اسی کے قالب میں ڈھل کر آئیں۔ فارسی اور اردو پر موقوف نہیں، ہرزبان میں دوسری زبان کے الفاظ آکراصلی حالت پرنہیں رہتے البتہ چونکہ اردو کوئی مستقل زبان نہیں، بلکہ عربی، فارسی، ہندی کا مجموعہ ہے، اس لئے اس کو عربی، فارسی وغیرہ کے الفاظ پر تصرف کا بہت کم حق حاصل ہے۔ اس لئے جہاں تک ہوسکے اس بات کا التزام زیادہ موزوں ہے کہ غیر زبانوں کے الفاظ صحیح تلفظ اور ترکیب کے ساتھ قائم رکھے جائیں، لیکن اس سے بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ اساتذہ قدیم و جدید نے عربی و فارسی کے بہت سے الفاظ کو اردو زبان میں غلط طور سے برتا اور آج وہی غلط استعمالات فصیح اور با محاورہ خیال کئے جاتے ہیں۔ بہر حال اس قسم کے الفاظ کے استعمال و عدم استعمال کے لئے جو قاعدہ کلیہ قرار پا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ جو الفاظ فصحا اور مسلم الثبوت اہل زبان کے عام استعمال میں آجائیں تو وہ صحیح الاستعمال ہیں اور جن کو اہل زبان نے عموماً نہ قبول کر لیا ہو، ان کا استعمال صحیح نہیں۔ اسی بنا پر جب مشہور اساتذہ مثلاً انیس، دبیر، آتش وغیرہ نے غلط الفاظ استعمال کئے، تو لوگوں نے اسی وقت اعتراض کیا کیونکہ وہ الفاظ فصحا کے نزدیک استعمال عام کی سند نہیں پا چکے تھے، اس لئے صرف ایک دو بزرگوں کا استعمال گو وہ کیسے ہی مسلم الثبوت استاد ہوں، صحت کی دلیل نہیں قرار پا سکتا تھا۔ ہمارے محترم بزرگ نے جن الفاظ کا ذکر کیا ہے وہ یقینا ًفصحائے اہل زبان کے ہاں مستعمل نہیں ہیں، اس لئے ان کے غلط ہونے میں کچھ کلام نہیں ہو سکتا۔ بےشبہ ایسےالفاظ کو بہت سختی سے روکنا چاہئے ورنہ زبان پر بہت برا اثر پڑے گا۔ کیونکہ اگر اس قسم کے الفاظ تحریر و تقریر میں کثرت سے پھیل گئے تو ہر شخص کہاں تک یہ تحقیق کرتا پھرے گا کہ ان میں سے کون سے فصحا کے نزدیک مقبول ہو چکے ہیں اور کون غیر مقبول۔


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.