امید ہے کہ مجھ کو خدا آدمی کرے

امید ہے کہ مجھ کو خدا آدمی کرے
by منتظر لکھنوی

امید ہے کہ مجھ کو خدا آدمی کرے
پر آدمی کرے تو بھلا آدمی کرے

اس طرح وہ فریب سے دل لے گئے مرا
جس طرح آدمی سے دغا آدمی کرے

بھاتیں نہیں کچھ اس کے نکلتی ہے اپنی جان
کیا ایسے بے وفا سے وفا آدمی کرے

مارا ہے کوہ کن نے سر اپنے پہ تیشہ آہ
دل کو لگی ہو چوٹ تو کیا آدمی کرے

گر کچھ کہا بگڑ کے میں بس اس نے ہنس دیا
کیا ایسے آدمی کا گلا آدمی کرے

گزرا میں ایسی چاہ سے تا چند ہم نشیں
بیٹھا کسی کے سر کو لگا آدمی کرے

ہے عشق بد مرض کوئی جاتا ہے منتظرؔ
کیا خاک اس مرض کی دوا آدمی کرے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse