امید ہے کہ مجھ کو خدا آدمی کرے

امید ہے کہ مجھ کو خدا آدمی کرے
by منتظر لکھنوی
315674امید ہے کہ مجھ کو خدا آدمی کرےمنتظر لکھنوی

امید ہے کہ مجھ کو خدا آدمی کرے
پر آدمی کرے تو بھلا آدمی کرے

اس طرح وہ فریب سے دل لے گئے مرا
جس طرح آدمی سے دغا آدمی کرے

بھاتیں نہیں کچھ اس کے نکلتی ہے اپنی جان
کیا ایسے بے وفا سے وفا آدمی کرے

مارا ہے کوہ کن نے سر اپنے پہ تیشہ آہ
دل کو لگی ہو چوٹ تو کیا آدمی کرے

گر کچھ کہا بگڑ کے میں بس اس نے ہنس دیا
کیا ایسے آدمی کا گلا آدمی کرے

گزرا میں ایسی چاہ سے تا چند ہم نشیں
بیٹھا کسی کے سر کو لگا آدمی کرے

ہے عشق بد مرض کوئی جاتا ہے منتظرؔ
کیا خاک اس مرض کی دوا آدمی کرے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.