انجام بخیر

انجام بخیر (1956)
by سعادت حسن منٹو
325049انجام بخیر1956سعادت حسن منٹو

بٹوارے کے بعد جب فرقہ وارانہ فسادات شدت اختیار کر گئے اور جگہ جگہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے خون سے زمین رنگی جانے لگی تو نسیم اختر جو دہلی کی نوخیز طوائف تھی اپنی بوڑھی ماں سے کہا،’’چلو ماں یہاں سے چلیں۔‘‘بوڑھی نائکہ نے اپنے پوپلے منہ میں پاندان سے چھالیہ کے باریک باریک ٹکڑے ڈالتے ہوئے اس سے پوچھا، ’’کہاں جائیں گے بیٹا۔۔۔‘‘

پاکستان۔ یہ کہہ کر وہ اپنے استاد خان صاحب اچھن خاں سے مخاطب ہوئی،’’خان صاحب! آپ کا کیا خیال ہے؟ یہاں رہنا اب خطرے سے خالی نہیں۔‘‘

خان صاحب نے نسیم اختر کی ہاں میں ہاں ملائی، ’’تم کہتی ہو مگر بائی جی کو منا لو تو سب چلیں گے۔‘‘

نسیم اختر نے اپنی ماں سے بہتیرا کہاکہ چلو اب یہاں ہندوؤں کا راج ہوگا۔ کوئی مسلمان باقی نہیں چھوڑیں گے۔

بڑھیا نے کہا، ’’تو کیا ہوا، ہمارا دھندہ تو ہندوؤں کی بدولت ہی چلتا ہے اور تمہارے چاہنے والے بھی سب کے سب ہندو ہی ہیں ،مسلمانوں میں رکھا ہی کیا ہے۔‘‘

’’ایسا نہ کہو، ان کا مذہب اور ہمارا مذہب ایک ہے۔ قائد اعظم نے اتنی محنت سے مسلمانوں کے لیے پاکستان بنایا ہے ہمیں اب وہیں رہنا چاہیے۔‘‘

مانڈو میراثی نے افیم کے نشہ میں اپنا سر ہلایا اور غنودگی بھری آواز میں کہا، ’’چھوٹی بائی، اللہ سلامت رکھے تمھیں۔۔۔ کیا بات کہی ہے۔ میں تو ابھی چلنے کے لیے تیار ہوں ،میری قبر وہاں بنے تومیری روح ہمیشہ خوش رہے گی۔‘‘

دوسرے میراثی تھے، وہ بھی تیار ہوگئے، لیکن بڑی بائی دلی چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔ بالا خانے پر اسی کا حکم چلتا تھا، اس لیے سب خاموش ہو گئے۔

بڑی بائی نے سیٹھ گوبند پرکاش کی کوٹھی پر آدمی بھیجا اور اس کو بلا کر کہا، ’’میری بچی آج کل بہت ڈری ہوئی ہے۔ پاکستان جانا چاہتی تھی۔ مگر میں نے سمجھایا،وہاں کیا دھرا ہے۔ یہاں آپ ایسے مہربان سیٹھ لوگ موجود ہیں، وہاں جا کر ہم اپلے تھاپیں گے۔ آپ ایک کرم کیجیے۔‘‘

سیٹھ بڑی بائی کی باتیں سن رہا تھا مگر اس کا دماغ کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ ایک دم چونک کر اس نے بڑی بائی سے پوچھا،’’تو کیا چاہتی ہے؟ ‘‘

’’ہمارے کوٹھے کے نیچے دو تین بندوقوں والے سپاہیوں کا پہرا کھڑا کر دیجیے تاکہ بچی کا سہم دور ہو۔‘‘

سیٹھ گوبند پرکاش نے کہا،’’ یہ کوئی مشکل نہیں۔ میں ابھی جا کر سپریٹنڈنٹ پولیس سے ملتا ہوں، شام سے پہلے پہلے سپاہی موجود ہوں گے۔‘‘

نسیم اختر کی ماں نے سیٹھ کو بہت دعائیں دیں۔ جب وہ جانے لگا تو اس نے کہا ہم آج اپنی بائی کا مجرا سننے آئیں گے۔ بڑھیا نے اٹھ کر تعظیماً کہا، ’’ہائے جم جم آئیے، آپ کا اپنا گھر ہے، بچی کو آپ اپنی قمیص سمجھیے، کھانا یہیں کھائیے گا۔‘‘

’’نہیں میں آج کل پرہیزی کھانا کھارہا ہوں۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنی توند پر ہاتھ پھیرتا چلا گیا۔

شام کو نسیم کی ماں نے چاندنیاں بدلوائیں، گاؤتکیوں پر نئے غلاف چڑھوائے ،زیادہ روشنی کے بلب لگوائے، اعلیٰ قسم کے سگرٹوں کا ڈبہ منگوانے بھیجا۔تھوڑی ہی دیر کے بعد نوکر حواس باختہ ہانپتا کانپتا واپس آ گیا۔ اس کے منہ سے ایک بات نہ نکلتی تھی۔ آخر جب وہ کچھ دیر کے بعد سنبھلا تو اس نے بتایا کہ چوک میں پانچ چھ سکھوں نے ایک مسلمان خوانچہ فروش کو کرپانوں سے اس کی آنکھوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ہے، جب اس نے یہ دیکھا تو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا اور یہاں آن کے دم لیا۔

نسیم اختر یہ خبر سن کر بے ہوش ہوگئی۔ بڑی مشکلوں سے خان صاحب اچھن خاں اسے ہوش میں لائے مگر وہ بہت دیر تک نڈھال رہی اور خاموش خلا میں دیکھتی رہی۔ آخر اس کی ماں نے کہا،’’خون خرابے ہوتے ہی رہتے ہیں، کیا اس سے پہلے قتل نہیں ہوتے تھے؟‘‘ دم دلاسہ دینے کے بعد نسیم اختر سنبھل گئی تو اس کی ماں نے اس سے بڑے دلاراور پیار سے کہا، ’’اٹھو میری بچی، جاؤ پشواز پہنو، سیٹھ آتے ہی ہوں گے۔‘‘

نسیم نے بادل نخواستہ پشواز پہنی، سولہ سنگھار کیے اور مسند پر بیٹھ گئی۔ اس کا جی بھاری بھاری تھا۔ اس کو ایسا محسوس ہوتا تھاکہ اس مقتول خوانچہ فروش کا سارا خون اس کے دل و دماغ میں جم گیا ہے ،اس کا دل ابھی تک دھڑک رہا تھا ۔وہ چاہتی تھی کہ زرق برق پشواز کی بجائے سادہ شلوار قمیص پہن لے اور اپنی ماں سے ہاتھ جوڑ کر بلکہ اس کے پاؤں پڑ کر کہے کہ خدا کے لیے میری بات سنو اور بھاگ چلو یہاں سے۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ ہم پر کوئی نہ کوئی آفت آنے والی ہے۔ بڑھیا نے جھنجھلا کر کہا، ’’ہم پرکیوں آفت آنے لگی، ہم نے کسی کا کیا بگاڑا ہے؟‘‘

نسیم نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا، ’’اس غریب خوانچہ فروش نے کسی کا کیا بگاڑا تھا جو ظالموں نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔ بگاڑنے والے بچ جاتے ہیں۔ مارے جاتے ہیں جنہوں نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا ہوتا۔‘‘

’’تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے۔‘‘

’’ایسے حالات میں کس کا دماغ درست رہ سکتا ہے۔ چاروں طرف خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھی، بالکونی میں کھڑی ہوگئی اور نیچے بازار میں دیکھنے لگی۔ اسے بجلی کے کھمبے کے پاس چار آدمی کھڑے دکھائی دیے۔ جن کے پاس بندوقیں تھیں ،اس نے خان اچھن کو بتایا اور وہ آدمی دکھائے۔ ایسا لگتا ہےکہ وہی سپاہی ہیں جن کو بھیجنے کا وعدہ سیٹھ کر گیا تھا۔ خان صاحب نے غور سے دیکھا۔

’’نہیں یہ سپاہی نہیں۔ سپاہیوں کی تو وردی ہوتی ہے، مجھے تو یہ غنڈے معلوم ہوتے ہیں۔‘‘

نسیم اختر کا کلیجہ دھک سے رہ گیا، ’’غنڈے! ‘‘

’’اللہ بہتر جانتا ہے۔ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ لو یہ تمہارے کوٹھے کی طرف آ رہے ہیں۔ دیکھو نسیم، کسی بہانے سے اوپر کوٹھے پر چلی جاؤ، میں تمہارے پیچھے آتا ہوں۔ مجھے دال میں کالا نظر آتا ہے۔‘‘

نسیم اختر چپکے سے باہر نکلی اور اپنی ماں سے نظر بچا کر اوپر کی منزل پر چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد خان صاحب اچھن خاںاپنی چندھی آنکھیں جھپکاتا اوپر آیا اور جلدی سے دروازہ بند کر کے کنڈی چڑھا دی۔

نسیم اختر جس کا دل جیسے ڈوب رہا تھا، خان صاحب سے پوچھا، ’’کیا بات ہے؟‘‘ ’’وہی جو میں نے سمجھا تھا۔ تمہارے متعلق پوچھ رہے تھے، کہتے تھے سیٹھ گوبند پرکاش نے کار بھیجی ہے اور بلوایا ہے۔ تمہاری ماں بڑی خوش ہوئی ۔بڑی مہربانی ہے ان کی۔ میں دیکھتی ہوں کہاں ہے شاید غسل خانے میں ہو۔ اتنی دیر میں میں تیار ہو جاؤں۔ان غنڈوں میں سے ایک نے کہا،تمھیں کیا شہد لگا کر چاٹیں گے ،بیٹھی رہو جہاں بیٹھی ہو ،خبردار! جو تم وہاں سے ہلیں ۔ہم خود تمہاری بیٹی کو ڈھونڈ نکالیں گے۔ میں نے جب یہ باتیں سنیں اور ان غنڈوں کے بِگڑے ہوئے تیور دیکھے تو کھسکتا کھسکتا یہاں پہنچ گیا ہوں۔‘‘

نسیم اختر حوا س باختہ تھی، ’’اب کیا کیا جائے ؟‘‘

خان نے اپنا سر کھجایا اور جواب دیا، ’’دیکھو میں کوئی ترکیب سوچتا ہوں بس یہاں سے نکل بھاگنا چاہیے۔‘‘

’’اور ماں؟‘‘

’’اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا، اس کو اللہ کے حوالے کر کے خود باہر نکلنا چاہیے۔‘‘

اوپر چار پائی پر دو چادریں پڑی ہوئی تھیں۔ خان صاحب نے ان کو گانٹھ دے کر رسہ سا بنایا اور مضبوطی سے ایک کنڈے کے ساتھ باندھ کر دوسری طرف لٹکایا ۔نیچے لانڈری کی چھت تھی، وہاں اگر وہ پہنچ جائیں تو راستہ آگے صاف ہے۔ لانڈری کی چھت کی سیڑھیاں دوسری طرف تھیں اس کے ذریعے سے وہ طویلے میں پہنچ جاتے اور وہاں سائیس سے جو مسلمان تھا، تانگہ لیتے اور اسٹیشن کا رخ کرتے۔ نسیم اختر نے بڑی بہادری دکھائی۔ آرام آرام سے نیچے اتر کر لانڈری کی چھت تک پہنچ گئی۔ خان صاحب اچھن خاں بھی بحفاظت تمام اتر گئے۔ اب وہ طویلے میں تھے ۔سائیس اتفاق سے تانگے میں گھوڑا جوت رہا تھا۔ دونوں اس میں بیٹھے اور اسٹیشن کا رخ کیا مگر راستے میں ان کو ملٹری کا ٹرک مل گیا ،اس میں مسلح فوجی مسلمان تھے جو ہندووں کے خطرناک محلوں سے مسلمانوں کو نکال نکال کر محفوظ مقامات پر پہنچا رہے تھے جو پاکستان جانا چاہتے، ان کو اسپیشل ٹرینوں میں جگہ دلوا دیتے۔

تانگہ سے اتر کر نسیم اختر اور اس کا استاد ٹرک میں بیٹھے اور چند ہی منٹوں میں اسٹیشن پر پہنچ گئے۔ اسپیشل ٹرین اتفاق سے تیار تھی اس میں ان کو اچھی جگہ مل گئی اور وہ بخیریت لاہور پہنچ گئے ۔یہاں وہ قریب قریب ایک مہینے تک والٹن کیمپ میں رہے، نہایت کسمپرسی کی حالت میں۔ اس کے بعد وہ شہر چلے آئے۔ نسیم اختر کے پاس کافی زیور تھا جو اس نے اس رات پہنا ہوا تھا جب سیٹھ گوبند پرکاش اس کا مجرا سننے آرہا تھا۔ یہ اس نے اتار کر خان صاحب اچھن خاں کے حوالے کر دیا تھا۔ ان زیوروں میں سے کچھ بیچ کر انھوں نے ہوسٹل میں رہنا شروع کر دیا لیکن مکان کی تلاش جاری رہی۔آخر بدقت تمام ہیرا منڈی میں ایک مکان مل گیا جو اچھا خاصا تھا۔ اب خان صاحب اچھن خاں نے نسیم اختر سے کہا، ’’گدے اور چاندنیاں وغیرہ خرید لیں اور تم بسم اللہ کر کے مجرا شروع کر دو۔‘‘

نسیم نے کہا، ’’نہیں خان صاحب !میرا جی اکتا گیا ہے میں تو اس مکان میں بھی رہنا پسند نہیں کرتی ،کسی شریف محلے میں کوئی چھوٹا سا مکان تلاش کیجیےکہ میں وہاں اٹھ جاؤں۔ میں اب خاموش زندگی بسر کرنا چاہتی ہوں۔‘‘

خان صاحب کو یہ سن کر بڑی حیرت ہوئی، ’’کیا ہوگیا ہے تمھیں؟‘‘

’’بس جی اچاٹ ہو گیا ہے۔ میں اس زندگی سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہتی ہوں۔ دعا کیجیے خدا مجھے ثابت قدم رکھے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے نسیم کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

خان صاحب نے اس کو بہت ترغیب دی پر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی ۔ایک دن اس نے اپنے استاد سے صاف کہہ دیا کہ وہ شادی کر لینا چاہتی ہے، اگر کسی نے اسے قبول نہ کیا تو وہ کنواری رہے گی۔

خان صاحب بہت حیران تھاکہ نسیم میں یہ تبدیلی کیسے آئی۔ فسادات تو اس کا باعث نہیں ہوسکتے۔ پھر کیا وجہ تھی کہ وہ پیشہ ترک کر نے پر تلی ہوئی ہے۔

جب وہ اسے سمجھا سمجھا کر تھک گیا تو اسے ایک محلے میں جہاں شرفاء رہتے تھے ،ایک چھوٹا سا مکان لے دیا اور خود ہیرا منڈی کی ایک مالدار طوائف کو تعلیم دینے لگا۔ نسیم نے تھوڑے سے برتن خریدے ،ایک چارپائی اور بستر وغیرہ بھی۔ ایک چھوٹا لڑکا نوکر رکھ لیا اور سکون کی زندگی بسر کرنے لگی ۔پانچوں نمازیں پڑھتی،روزے آئے تو اس نے سارے کے سارے رکھے ۔ایک دن وہ غسل خانے میں نہا رہی تھی کہ سب کچھ بھول کر اپنی سریلی آواز میں گانے لگی۔ اس کے ہاں ایک اور عورت کا آنا جانا تھا۔ نسیم اختر کو معلوم نہیں تھا کہ یہ عورت شریفوں کے محلے کی بہت بڑی پھپھا کٹنی ہے ۔شریفوں کے محلے میں کئی گھر تباہ و برباد کر چکی ہے ،کئی لڑکیوں کی عصمت اونے پونے داموں بِکوا چکی ہے، کئی نوجوانوں کو غلط راستے پر لگا کر اپنا الو سیدھا کرتی رہتی ہے۔

جب اس عورت نے جس کا نام جنتے ہے، نسیم کی سریلی اور منجھی ہوئی آواز سنی تو اس کو فوراً خیال آیا کہ اس لڑکی کا آگا ہے نہ پیچھا،بڑی معرکے کی طوائف بن سکتی ہے ۔چنانچہ اس نے اس پر ڈورے ڈالنے شروع کر دیے۔ اس کو اس نے کئی سبز باغ دکھائے مگر وہ اس کے قابو میں نہ آئی۔ آخر اس نے ایک روز اس کو گلے لگایا اور چٹ چٹ اس کی بلائیں لینا شروع کر دیں۔ جیتی رہو بیٹا۔ میں تمہارا امتحان لے رہی تھی ،تم اس میں سولہ آنے پوری اتری ہو۔ نسیم اختر اس کے فریب میں آگئی۔ ایک دن اس کو یہاں تک بتا دیا کہ وہ شادی کرنا چاہتی ہے کیونکہ ایک یتیم کنواری لڑکی کا اکیلے رہنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔

جنتے کو موقع ہاتھ آیا۔ اس نے نسیم سے کہا،’’بیٹا یہ کیا مشکل ہے میں نے یہاں کئی شادیاں کرائی ہیں، سب کی سب کامیاب رہی ہیں۔ اللہ نے چاہا تو تمہارے حسب منشا میاں مل جائے گا جو تمہارے پاؤں دھو دھو کر پئے گا۔‘‘

جنتے کئی فرضی رشتے لائی مگر اس نے ان کی کوئی زیادہ تعریف نہ کی۔ آخر میں وہ ایک رشتہ لائی جو اس کے کہنے کے مطابق فرشتہ سیرت اور صاحب جائیداد تھا ،نسیم مان گئی، تاریخ مقرر کی گئی اور اس کی شادی انجام پا گئی۔

نسیم اختر خوش تھی کہ اس کا میاں بہت اچھا ہے، اس کی ہر آسائش کا خیال رکھتا ہے لیکن اس دن اس کے ہوش و حواس گم ہوگئے جب اس کو دوسرے کمرے سے عورتوں کی آوازیں سنائی دیں۔ دروازے میں سے جھانک کر اس نے دیکھا کہ اس کا شوہر دو بوڑھی طوائفوں سے اس کے متعلق باتیں کر رہا ہے، جنتے بھی پاس بیٹھی تھی۔ سب مل کر اس کا سودا طے کررہے تھے ۔اس کی سمجھ میں نہ آیا کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ بہت دیر روتی اور سوچتی رہی۔ آخر اٹھی اور اپنی پشواز نکال کر پہنی اور باہر نکل کر سیدھی اپنے استاد اچھن خاں کے پاس پہنچی اور مجرے کے ساتھ ساتھ پیشہ بھی شروع کر دیا ۔ایک انتقامی قسم کے جذبے کے تحت وہ کھیلنے لگی۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.