اندمال
by شکیب جلالی
330812اندمالشکیب جلالی

شام کی سیڑھیاں کتنی کرنوں کا مقتل بنیں
باد مسموم نے توڑ کر کتنے پتے سپرد خزاں کر دیے
بہہ کے مشکیزۂ ابر سے کتنی بوندیں زمیں کی غذا بن گئیں
غیرممکن تھا ان کا شمار
تھک گئیں گننے والے ہر اک ہاتھ کی انگلیاں
ان گنت کہہ کے آگے بڑھا وقت کا کارواں
ان گنت تھے مرے زخم دل
ٹوٹی کرنوں، بکھرتے ہوئے زرد پتوں، برستی ہوئی بوندیوں کی طرح
اور مرہم بھی ناپید تھا
لیکن اس روز دیکھا جو اک طفل نو زائیدہ کا خندۂ زیر لب
زخم دل مندمل ہو گئے سب کے سب!


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.