انسان کے خیالات

انسان کے خیالات
by سید احمد خان
319307انسان کے خیالاتسید احمد خان

جہاں اور بہت سے عجائبات قدرت الٰہی ہیں انہیں میں سے انسان کے خیالات بھی نہایت عجیب ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک قسم کی مخلوقات ایک ہی سا خیال رکھتی ہے۔ جانوروں کی وہ حرکات اور افعال جو جاندار ہونے کے سبب سے ہیں اور وہ چیز جو محرک ان افعال یا حرکات کی بواسطہ یا بلا واسطہ ہے اس کا کچھ ہی نام رکھو، مگر وہ وہی چیز ہے جس کو انسانی حالت میں خیال کہتے ہیں۔

تمام افعال اور حرکات جانوروں کی بلاشبہ ارادی ہیں اور کچھ شک نہیں کہ وہ متحرک بالارادہ ہیں۔ ان کی تمام حرکتوں کا باعث بواسطہ یا بلاواسطہ ایک خیال جلب منفعت مادی جیسے غذا اور مسکن وغیرہ یا غیر مادی جیسے فرحت و انبساط اور بشاشت یا خیال دفع مضرت مادی و غیر مادی کا ہوتا ہے۔ ہم نہیں پاتے کہ انسان میں اور کوئی چیز اس سے زیادہ ہے۔ بلاشبہ اتنا فرق پاتے ہیں کہ جانو روں میں وہ خیالات محدود اور انسان میں نامحدود ہیں۔ مگر تعجب تو ہم کو ا س بات سے ہوتا ہے کہ ہر گاہ ایک قسم کے جانداروں میں ایک ہی سے خیالات ہیں اور ان پر وہ سب ایک ہی سا یقین کامل رکھتے ہیں تو تمام انسان بھی باوجود یکہ ایک قسم کے جاندار ہیں، ایک ہی سے خیالات اور ایک سا یقین کیوں نہیں رکھتے ہیں۔

کبھی یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جانوروں کے خیالات محدود ہونے کے سبب متفق ہیں اور انسان کے خیالات میں نا محدود ہونے کے سبب وہ صفت نہیں ہے، مگر یہ بات تسلیم نہیں کی جا سکتی، اس لیے کہ نامحدود ہونے کے لیے مختلف ہونا ضرور نہیں ہے۔ پس انسانوں کے خیالات سے جہاں تک ہم کو واقفیت ہو، اسی قدر عجائبات قدرت الہٰی سے ہم کو زیادہ واقفیت ہوتی ہے اور ان خیالات کا صحیح ہونا یا غیر صحیح ہونا ہمارے اس فائدہ میں کچھ نقصان نہیں پہونچاتا، بلکہ در صورت مختلف ہونے کے اور بھی زیادہ فائدہ دیتا ہے، اس لیے ہم اپنے اس آرٹیکل میں ایک انسان کے خیالات بیان کرتے ہیں جن کو وہ اس طرح پر کہتا ہے۔

مجھ کو خیال آیا کہ جس قدر اور جانداروں کو کرنا ہے اتنا ہی مجھ کو بھی کرنا ہے یا اس سے زیادہ۔ مگر میرے خیال میں یہ آیا کہ انسان کے سوا تمام جاندار مخلوقات کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے ان کے بنانے والے کاریگر نے سب کچھ ان کے ساتھ بنادی ہیں۔ ان کو ان چیزوں کے بہم پہنچانے یا پیدا کرنے کی حاجت نہیں ہے۔ تمام جانوروں کی خوراک بغیر ان کی سعی و تدبیر کے پیدا ہوتی ہے۔ سرد ملک کے جانوروں کے لیے نہایت عمدہ پشمینے کا گرم لباس ان کے بدنوں پر پیدا کیا ہے۔ پرند جانوروں کے لیے مینہ سے بچنے کا باران کوٹ انہی کے بدنوں پر سیا ہے۔ گرم ملک کے جانوروں کے لیے اسی آب و ہوا کے مناسب ان کا جامہ قطع کیا، مگر انسان کے لیے کچھ نہیں کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو یہ سب کچھ خود کرنا ہے۔

پھر میں نے خیال کیاکہ حیوان اپنے کاموں کے کرنے کے لیے کسی سے کچھ سیکھنے یا تعلیم پانے کے محتاج نہیں ہوتے، خود سیکھے سکھائے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ شہد کی مکھی کو رس چوسنے کے لیے عمدہ قسم کے ماخذوں کی شناخت کوئی نہیں بتاتا اور اپنے گھروں کو ایسی عمدہ تقسیم سے نکالنا جس میں ایک بڑا مہندس بھی حیران ہو جاوے کوئی نہیں پڑھاتا۔ بیئے کو ایسا عمدہ اور محفوظ کا شانہ بنانا کوئی نہیں سکھاتا، مگر انسان کو بغیر سیکھے کچھ بھی نہیں آتا۔ پھر میں نے خیال کیا کہ حیوان کے کام خواہ وہ افعال جوارح سے ہوں یا دوسری قسم سے اور وہ از خود ان کو آئے ہوں یا تعلیم سے، نہایت محدود ہیں، مگر انسان کے ہر قسم کے کام نا محدود ہیں۔ ان سب باتوں سے میں نے خیال کیا کہ انسان کو اور جانوروں سے بہت کچھ زیادہ کرنا ہے۔

پھر میں نے خیال کیا کہ ایسے بڑے کاریگر نے جو انسان کو اور جانوروں سے بھی زیادہ در ماندہ بنایا ہے اور طرح طرح کی مشکلات میں ڈالا ہے تو کیا چیز اس کو دی ہے جس سے وہ یہ سب چیزیں کر سکتا ہے او ر تمام مشکلوں پر فتح پا سکتا ہے، اتنے میں میرا دل بول اٹھا کہ عقل۔ میں یہ بات سن کر سوچ میں گیا کہ کیا یہ بات سچ ہے، مگر میں نے خیال کیا کہ عقل سے تو یہ کام نہیں نکل سکتا۔ نہ تو وہ خود یہ کام نکال سکتی ہے اور نہ اس کے بغیر یہ مشکل حل ہو سکتی ہے، یہ تو کسی دوسری چیز کے حاصل کرنے کو بطور آلے کے ہے جیسے کہ سونا چاندی ہماری بھو ک نہیں کھو سکتا، مگر اس چیز کو بہم پہنچا دیتا ہے جو ہماری بھوک کھو دیتی ہے۔

بہت سی تلاش اور جستجو میں نے کی اور خیال دوڑایا کہ وہ کیا چیز ہے جس کے حاصل کرنے کے لیے عقل بھی صرف آلہ ہے تو خیال میں آیا کہ وہ چیز علم ہے جس کے معنی دانستن ہیں۔ تب میں سمجھاکہ مجھ کو اور جانوروں سے زیادہ جو کچھ کرنا ہے وہ صرف تمام باتوں کی اصلیت دریافت کرنا ہے۔ میں نے خیال کیا کہ علم اور یقین یہ دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ جس چیز کا مجھ کو علم ہوگا بے شک اس کا یقین بھی ہوگا اور جس کا یقین ہوگا اس کا علم بھی ہوگا۔ پس میں نے خیال کیا کہ یقین بغیر علم کے اور علم بغیر یقین کے سچا اور پورا نہیں ہے۔

میں نے اس بات کو بالکل سچ سمجھا اور خیال کیا کہ مثلاً مجھ کو اعداد کے حسا ب میں تین کا اور دس کا علم ہے اور اس لیے یقین ہے کہ دس بہ نسبت تین کے زیادہ ہوتے ہیں، تو اگر کوئی شخص اس کے بر خلاف کہے اور اپنے بیان کے ثبوت کے لیے یہ بات کہے کہ میں اس لکڑی کو سانپ بنا دیتا ہوں اور وہ اس کو سانپ بنا بھی دے، تو کچھ عجیب نہیں کہ اس کاا یسا کرنا مجھ کو حیرت میں ڈال دے، مگر کسی طرح اس بات کے یقین میں کہ دس بہ نسبت تین کے زیادہ ہوتے ہیں، شک نہیں لانے کا۔

میں نے یہ خیال کیا کہ مسلمانوں کے مذہب کا یہ ایمانی مسئلہ کہ اقرار باللسان و تصدیق بالقلب بے شک سچا مسئلہ ہے۔ اس کا پہلا جزو تو دنیاوی باتوں سے متعلق ہے مگر جو اصل مطلب ہے وہ دوسرے جزو میں ہے۔ تصدیق قلبی او ر یقین اگر چہ ایک ہی چیز ہے، مگر الفاظ تصدیق قلبی زیادہ شان دار اور مطلب کو زیادہ تر دل پر نقش کرنے والے ہیں۔۔۔ اس لیے میں نے خیال کیا کہ ایمان بے یقین کے اور یقین بغیر علم کے نہیں ہو سکتا۔ میں نے یہ بھی خیال کیا کہ علم یا یقین جس کے بغیر ایمان نہیں حاصل ہو سکتا، ایسا ہی ہونا چاہیے جیسے کہ دس اور تین کی زیادتی و کمی کا یقین ہے۔ تاکہ کسی طرح زائل نہ ہوسکے، کیونکہ اگر وہ کسی طرح زائل ہوگیا تو وہ حقیقت میں علم یا یقین نہ تھا، بلکہ محض ایک دھوکا تھا۔

ان تمام خیالات نے مجھ کو گھبرا لیا او رمیں چاروں طرف ڈھونڈنے لگا کہ علم یا یقین، بلکہ یوں کہو کہ ایمان حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے۔ میں نے دیکھا کہ ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں آدمی بہت سی باتوں پر یقین رکھتے ہیں اور ان کو کچھ بھی مشکل نہیں ہوتی۔ میں کیوں ایسی مشکلات میں پڑا ہوں۔ بہتر ہے کہ ان لوگوں سے پوچھوں کہ تم نے ان سب باتوں پر کس طرح سے یقین حاصل کیا۔ یہودی نے کہا کہ مجھے اس بات پر یقین کامل ہے کہ خدا ایک ہے، اس لیے کہ موسی نے کہا ہے۔ عیسائی بولا کہ غلط، خدا تین ہیں اور مجھ کو اس پر کامل یقین ہے اس لئے کہ یوحنا نے یوں ہی بتایا ہے۔

ایسے اختلاف سے میں اور بھی گھبرایا، میں نے خیال کیا کہ ایک شے کے علم یا یقین میں اختلاف ہے تو وہ یقین ہی نہیں، پھر کیوں کر ان کو ایسا مختلف یقین ہوا۔ جب میں نے غور کیا تو سمجھا کہ ان کو تو نہ خدا کے ایک ہونے پر یقین ہے نہ خد ا کے تین ہونے پر، بلکہ ان کو تو اس بات پر یقین ہے کہ موسی ٰ اور یوحنا نے ایسا کہا ہے۔ یہودی بولا کہ موسی نے خدا سے باتیں کیں۔ لکڑی کو سانپ بنایا پھر اس نے جو کہا اس میں کیا شک ہے؟ عیسائی بولا کہ عیسیٰ نے مردوں کو جلایا، مارنے سے بھی نہ مرا، بلکہ قبر میں سے اٹھ کر آسمان پر چلا گیا، پھر اس کے خدا ہونے میں کیا شک ہے؟ پہلے تو میں شک میں پڑا کہ دلیلیں تو اچھی ہیں مگر پھر مجھے خیال ہوا کہ ان کو تو خدا سے موسیٰ کے باتیں کرنے پر اور لکڑی کو سانپ بنانے پر اور عیسیٰ کے مردوں کو جلانے پر اور خود جی اٹھنے پر یقین ہے، خدا کے ایک یا تین ہونے پر یقین نہیں ہے۔

ان سب مباحثوں کے بعد میں نے یقین کیا کہ علم یا یقین یا ایمان حاصل کرنے کا وسیلہ صرف عقل ہے جو ان چیزوں کے حاصل کرنے کے لیے آلہ اور نہایت عمدہ رہنما ہے۔ پھر میں نے خیال کیا کہ عقل پر غلطی سے محفوظ رہنے کا کیوں کر یقین ہو، میں نے اقرار کیا کہ حقیقت میں اس پر یقین نہیں ہو سکتا، مگر جب عقل ہمیشہ کام میں لائی جاتی ہے تو ایک شخص کی عقل کی غلطی دوسرے شخص کی عقل سے اور ایک زمانے کی عقلوں کی غلطی دوسرے زمانے کی عقلوں سے صحیح ہو جاتی ہیں، مگر جب کہ علم یا یقین یا ایمان کا مدار عقل پر نہ رکھا جاوے تو ا س کا حاصل ہونا کسی زمانے اور کسی وقت میں بھی ممکن نہیں۔

میرے دل میں شبہ اٹھا کہ عقل کو جو میں نے سب سے بڑا رہنما سمجھا کیوں سمجھا، کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ عقل سے بڑا کوئی اور رہنما ہو جو عقل کو بھی شکست دے دے، ہم کو اس سے واقفیت نہ ہونی اس کے معدوم ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ مگر میں نے خیال کیا کہ ایسے رہنما کے موجود ہونے کے احتمال سے ہمار ا کام نہیں چلتا۔ اس کے موجود ہونے کا ہم کو علم اور یقین چاہیئے، جب یہ نہیں ہے تو عقل کے سوا ااور کوئی رہنما بھی نہیں ہے۔

مجھے خواب کا خیال آیا، میں نے اپنے دل میں کہا کہ سونے کے وقت ہم خواب دیکھتے ہیں اور اس حالت میں ہم اس کو واقعی اور اصلی سمجھتے ہیں اور اس کے سچے ہونے میں ہم کو کچھ شبہ بھی نہیں ہوتا، مگر جب جاگتے ہیں تو جانتے ہیں کہ وہ اصلی نہ تھا، بلکہ صرف خواب و خیال تھا تو کس وجہ سے ہم کو یقین ہے کہ جو کچھ ہم حالت بیداری میں جانتے اور سمجھتے ہیں وہ دراصل صحیح اور واقعی ہے، ممکن ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے اس وقت کی حالت کے مطابق صحیح ہو، مگر ایک دوسری حالت پیش آوے جو ہماری بیداری کی حالت کے ساتھ ایسی ہی مناسبت رکھتی ہو، جیسا کہ ہماری بیداری کی در حقیقت خواب کی حالت تھی۔ مگر پھر مجھے خیال آیا کہ ایسی حالت کا احتمال ہمارے یقین کو کافی نہیں، ہم کو یقین ہونا چاہیے کہ در حقیقت ایسی بھی کوئی حالت ہے، اور احتمال اور یقین میں بڑا فرق ہے، پھر عقل کے سوا کوئی ذریعہ نہیں رہا۔

میں نے خیال کیا کہ ممکن ہے کہ ورائے عقل کے او ر طریقہ بھی ہو جس سے صورت یا کیفیت روح کی تبدیل ہو جاوے اور وہی تبدیلی یا ترقی آلہ حصول علم یا یقین یا ایمان کی ہو اور اس کیفیت میں اور اس سے پہلی کیفیت میں ایسا ہی فرق ہو جیسا کہ ایک تندرست شخص میں اور اس شخص میں جو تندرستی کے حال سے واقف ہو، فرق ہے۔ پھر مجھ کو خیال آیا کہ تندرستی کے حال سے واقف ہونا بغیر تندرست رہے ممکن نہیں اور صورت یا کیفیت روح کی تبدل کی حالت میں اس بات کی تمیز کرنے کے لیے کہ دونوں حالتوں میں سے بیماری کی حالت کون سی ہے، کیا چیز ہے وہی تبدل صورت یا کیفیت روح تو اس کی ممیز ہو نہیں سکتی، لا محالہ دوسری چیز چاہیے اور وہ دوسری چیز بجز عقل کے اور کوئی نہیں ہے۔ اس لیے کسی طرف جاؤ اور کہیں سے پھیر کھاکر آؤ علم یا یقین یا ایمان کا مدار صرف عقل ہی پر رہتا ہے۔

ان تمام خیالوں نے مجھے یہ ہدایت کی کہ عام لوگوں میں جو یہ مسئلہ ہے کہ ایمان اور مذہب کو عقل سے کچھ علاقہ نہیں ہے یقینی غلط ہے اور جب میں نے مذہب اسلام کو بالکل عقل کے مطابق پایا تو اس کی سچائی پر اور اس مسئلے کی غلطی پر اور بھی کامل یقین ہوا۔


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.