انسان ہے تو کبر سیں کہتا ہے کیوں انا
انسان ہے تو کبر سیں کہتا ہے کیوں انا
آدم تو ہم سنا ہے کہ وہ خاک سے بنا
کیسا ملا ہے ہم سیں کہ اب لگ ہے انمنا
سن کر ہماری بات کوں کرتا ہے ہاں نہ نا
مکھڑے کی نو بہار ہوئی خط سے آشکار
سبزہ نہ تھا یہ حسن کا بنجر تھا پر گھنا
مردا ہے بے وصال رہے گو کہ جاگتا
سوتا ہوں یار ساتھ سو زندوں میں جاگنا
دونی بیماری جب سیں بتاتے ہیں فاحشہ
مل مل کے جس قدر کہ گھناتے ہیں ابٹنا
یوں دل ہمارا عشق کی آتش میں خوش ہوا
بھن کر تمام آگ میں کھلتا ہے جوں چنا
نہیں آب و گل صفت ترے تن کے خمیر کی
کرتا ہوں جان و دل کوں لگا اس کی میں ثنا
جب آبروؔ کا بیاہ ہوا بکر فکر سیں
تب شاعروں نے نام رکھا اس کا بت بنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |