انکار ہم سے غیر سے اقرار بس جی بس

انکار ہم سے غیر سے اقرار بس جی بس
by نظیر اکبر آبادی

انکار ہم سے غیر سے اقرار بس جی بس
دیکھے تمہارے ہم نے یہ اطوار بس جی بس

اتنا ہوں جائے رحم جو کرتا ہے وہ جفا
تو اس سے رو کے کہتے ہیں اغیار بس جی بس

ساقی ہمیں پلائیے یوں جام پے بہ پے
جو ہم نشین کہہ اٹھیں یک بار بس جی بس

ہوں ناامید وصل سے یوں جیسے وقت نزع
رو کر کہے طبیب سے بیمار بس جی بس

غش ہوں میں وقت بوسہ جو کہتا ہے ہنس کے وہ
منہ کو ہٹا ہٹا کے بہ تکرار بس جی بس

اس کا جو بس جی بس مجھے یاد آوے ہے تو آہ
پہروں تلک میں کہتا ہوں ہر بار بس جی بس

کل وہ جو بولا ٹک تو کہا ہم نے منہ پھرا
خیر اب نہ ہم سے بولئے زنہار بس جی بس

ہم دل لگا کے تم سے ہوے یاں تلک بہ تنگ
جو اپنے جی سے کہتے ہیں لاچار بس جی بس

سن کر کہا کہ کیا مرے لگتی ہے دل میں آگ
شکوہ سے جب کرے ہے تو اظہار بس جی بس

ایسے طمانچے ماروں گا منہ میں ترے نظیرؔ
گر تو نے مجھ سے پھر کہا ایک بار بس جی بس

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse