ان سے دو آنکھ سے آنسو بھی بہائے نہ گئے

ان سے دو آنکھ سے آنسو بھی بہائے نہ گئے
by عاشق اکبرآبادی

ان سے دو آنکھ سے آنسو بھی بہائے نہ گئے
قبر عاشق کے نشاں بھی تو مٹائے نہ گئے

ہم مٹے بھی تو مٹے خاک جو حسرت نہ مٹی
ہم گئے بھی تو گئے کیا جو بلائے نہ گئے

بزم دشمن میں ابھی تھے ابھی اپنے گھر میں
آ کے یوں بیٹھے کہ جیسے کہیں آئے نہ گئے

برق کہئے کہ چھلاوا جو چمک دکھلا کر
اس طرح آئے کہ آئے بھی اور آئے نہ گئے

ہیں وہ عاشقؔ کہ جگہ پا کے نہ نکلے دل سے
یاد آئے تو جنوں مجھ سے بھلائے نہ گئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse