ان کی باتوں کو کچھ قیام نہیں

ان کی باتوں کو کچھ قیام نہیں (1930)
by نشتر چھپروی
324017ان کی باتوں کو کچھ قیام نہیں1930نشتر چھپروی

ان کی باتوں کو کچھ قیام نہیں
صبح کہتے ہیں ہاں تو شام نہیں

ذکر دشمن پہ کیوں بگڑتے ہو
مہرباں آپ کا تو نام نہیں

مجھ کو کمبخت کیوں کہو ہر دم
میری جاں یہ تو میرا نام نہیں

برہمن ہم ہوئے مسلماں سے
اب بھی کافر تو ہوگا رام نہیں

در پہ ہے پاسبان میرے لئے
غیر جائے تو روک تھام نہیں

غیر پر خم کے خم لنڈھاتے ہو
میرے حصے کا کوئی جام نہیں

مست ہو کر وہ شیخ کا کہنا
مفت کی ہو تو مے حرام نہیں

جب کہا تم عدو پہ مرتے ہو
بولے اس میں کوئی کلام نہیں

غیر کیوں جا رہے ہیں مقتل کو
امتحاں میرا قتل عام نہیں

بس تمہارا غلام ہو کے رہوں
چاہئے مجھ کو اور نام نہیں

مست رکھتی ہے چشم مست اس کی
مجھ کو اب آرزوئے جام نہیں

ہنس پڑے ذکر وصل دشمن پر
یعنی میرا خیال خام نہیں

عید کا دن ہے پی بھی لے اک جام
اب تو زاہد مہ صیام نہیں

تیری عیاریاں سمجھتا ہوں
تجھ کو اور دشمنوں سے کام نہیں

کم ہے کب روز ہجر سے شب غم
صبح اس کی تو اس کی شام نہیں

غیر ہی فیضیاب رہتا ہے
مہربانی تمہاری عام نہیں

ایک چپ سی لگی ہے نشترؔ کو
جب سے وہ شوخ ہم کلام نہیں


This anonymous or pseudonymous work is in the public domain in the United States because it was in the public domain in its home country or area as of 1 January 1996, and was never published in the US prior to that date. It is also in the public domain in other countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 80 years or less since publication.