ان کی یہ ضد کہ مرے گھر میں نہ آئے کوئی
ان کی یہ ضد کہ مرے گھر میں نہ آئے کوئی
اپنی ہی ہٹ کہ مجھے خود ہی بلائے کوئی
وصل میں ہائے بگڑ کر یہ کسی کا کہنا
ہاتھ ٹوٹیں جو ہمیں ہاتھ لگائے کوئی
حشر میں دیکھ کے آمادۂ فریاد مجھے
کہتے ہیں طنز سے اب ان کو مٹائے کوئی
اصل اور نقل میں کیا فرق ہے کھل جائے ابھی
تیری تصویر جو یوسف سے ملائے کوئی
کیوں فلک ہم کو مٹائے جو تم اتنی کہہ دو
غم زدوں کو نہ محبت کے ستائے کوئی
ان کی رگ رگ میں زمانے کی بھری ہیں گھاتیں
بھولی صورت پہ حسینوں کی نہ جائے کوئی
ہائے جھنجھلا کے شب وصل کسی کا کہنا
نیند آتی ہے ہمیں اب نہ جگائے کوئی
بت کدے میں تو یہ شکلیں بھی نظر آتی ہیں
شیخ کعبے میں دھرا کیا ہے کہ جائے کوئی
پارسائی میں بھی نفرت ہے رکھائی سے حفیظؔ
تھوڑی پی لیں جو محبت سے پلائے کوئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |