اوروں کی بات یاں بہت کم ہے

اوروں کی بات یاں بہت کم ہے
by میر محمدی بیدار

اوروں کی بات یاں بہت کم ہے
ذکر خیر آپ کا ہی ہر دم ہے

جان تک تو نہیں ہے تجھ سے دریغ
اے میں قربان کیوں تو برہم ہے

گاہ رونا ہے کاہ ہنسنا ہے
عاشقی کا بھی زور عالم ہے

خوش نہ پایا کسی کو یاں ہم نے
دیکھی دنیا سرائے ماتم ہے

آہ جس دن سے آنکھ تجھ سے لگی
دل پہ ہر روز اک نیا غم ہے

مگر آنسو کسو کے پونچھے ہیں
آستیں آج کیوں تری نم ہے

اس کے عارض پہ ہے عرق کی بوند
یا کہ بیدارؔ گل پہ شبنم ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse