اور بھی ہو گئے بیگانہ وہ غفلت کر کے
اور بھی ہو گئے بیگانہ وہ غفلت کر کے
آزمایا جو انہیں ضبط محبت کر کے
دل نے چھوڑا ہے نہ چھوڑے ترے ملنے کا خیال
بارہا دیکھ لیا ہم نے ملامت کر کے
دیکھنے آئے تھے وہ اپنی محبت کا اثر
کہنے کو یہ ہے کہ آئے ہیں عیادت کر کے
پستئ حوصلۂ شوق کی اب ہے یہ صلاح
بیٹھ رہئے غم ہجراں پہ قناعت کر کے
دل نے پایا ہے محبت کا یہ عالی رتبہ
آپ کے درد دواکار کی خدمت کر کے
روح نے پائی ہے تکلیف جدائی سے نجات
آپ کی یاد کو سرمایۂ راحت کر کے
چھیڑ سے اب وہ یہ کہتے ہیں کہ سنبھلو حسرتؔ
صبر و تاب دل بیمار کو غارت کر کے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |