اور مے خانہ نشیں چور بنائے نہ گئے

اور مے خانہ نشیں چور بنائے نہ گئے
by ریاض خیرآبادی

اور مے خانہ نشیں چور بنائے نہ گئے
ہم دھرے جاتے ہیں ناحق کہیں آئے نہ گئے

شوخیاں تیری اٹھائیں گی مجھے بزم سے کیا
ان سے تو شرم کے پردے بھی اٹھائے نہ گئے

قید نغمے کی ہوئی قید قفس پر طرہ
ہم سے صیاد کو نالے بھی سنائے نہ گئے

پردہ ڈالا تری رحمت نے مرے عصیاں پر
ان فرشتوں سے مرے عیب چھپائے نہ گئے

کون سا لطف نہ فردوس میں پایا لیکن
پھر بھی دنیا کے مرے دل سے بھلائے نہ گئے

جب چلے سوئے لحد مڑ کے نہ دیکھا گھر کو
ایسے روٹھے کہ کسی سے بھی منائے نہ گئے

یہ سمجھ کر کہ گنہ گار ہیں کس مالک کے
نہ گئے حشر میں ہم آنکھ جھکائے نہ گئے

غیر کے جلنے سے کچھ آنچ نہ آتی تم پر
کیوں الگ بیٹھے ہوئے آگ لگائے نہ گئے

نہ رہا حشر میں نظارہ سے محروم کوئی
قبر سے ایک ہمیں آج اٹھائے نہ گئے

کس نے دیکھا ہمیں کوچے میں حسینوں کے ریاضؔ
مفت بدنام ہوئے ہم کہیں آئے نہ گئے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse