اول تو رہے دور وہ نالوں سے ہمارے

اول تو رہے دور وہ نالوں سے ہمارے
by داغ دہلوی

اول تو رہے دور وہ نالوں سے ہمارے
پاس آئے تو گھبرائے سوالوں سے ہمارے

یہ کہتے ہیں بلبل سے وہ گل ہاتھ میں لے کر
تو دیکھ ملا کر اسے گالوں سے ہمارے

کیا برہنہ پا دشت میں لاکھوں بھی نہ ہوں گے
کانٹوں کو مگر چھیڑ ہے چھالوں سے ہمارے

ہر وقت نئی دھن ہے ہمیں تازہ تصور
جاؤ گے کہاں بچ کے خیالوں سے ہمارے

کہتی ہیں وہ آنکھیں صف مژگاں کو بڑھا کر
ہے کون جو روکش ہو رسالوں سے ہمارے

اے داغؔ فلک دشمن ارباب ہنر ہے
ظالم کو خبر ہو نہ کمالوں سے ہمارے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse