اول سیں دل مرا جو گرفتار تھا سو ہے

اول سیں دل مرا جو گرفتار تھا سو ہے
by سراج اورنگ آبادی
294516اول سیں دل مرا جو گرفتار تھا سو ہےسراج اورنگ آبادی

اول سیں دل مرا جو گرفتار تھا سو ہے
میرے گلے میں عشق کا زنار تھا سو ہے

اے شاہ حسن مجھ کوں تمہاری جناب میں
مدت سیں بندگی کا جو اقرار تھا سو ہے

معلوم یوں ہوا کہ نصیبوں میں نہیں شفا
شمشیر غم کا وار جگر پار تھا سو ہے

جیوں غنچہ سیر باغ سیں ہوتا ہوں تنگ دل
تجھ بن مری نگاہ میں گل خار تھا سو ہے

سوزن مثال آنکھ میں سلتی ہے ہر پلک
تیری برہ کا خار دل آزار تھا سو ہے

اب لگ غم فراق جدائی کی رات میں
یارو رفیق و مونس و غم خوار تھا سو ہے

مت بوجھ سوز عشق سیں فارغ سراج کوں
پروانہ وار جان سیں بلہار تھا سو ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.