اول سیں دل مرا جو گرفتار تھا سو ہے
اول سیں دل مرا جو گرفتار تھا سو ہے
میرے گلے میں عشق کا زنار تھا سو ہے
اے شاہ حسن مجھ کوں تمہاری جناب میں
مدت سیں بندگی کا جو اقرار تھا سو ہے
معلوم یوں ہوا کہ نصیبوں میں نہیں شفا
شمشیر غم کا وار جگر پار تھا سو ہے
جیوں غنچہ سیر باغ سیں ہوتا ہوں تنگ دل
تجھ بن مری نگاہ میں گل خار تھا سو ہے
سوزن مثال آنکھ میں سلتی ہے ہر پلک
تیری برہ کا خار دل آزار تھا سو ہے
اب لگ غم فراق جدائی کی رات میں
یارو رفیق و مونس و غم خوار تھا سو ہے
مت بوجھ سوز عشق سیں فارغ سراج کوں
پروانہ وار جان سیں بلہار تھا سو ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |