اول شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی

اول شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی
by آرزو لکھنوی

اول شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی
رات کے آخر ہوتے ہوتے ختم تھا یہ افسانہ بھی

قید کو توڑ کے نکلا جب میں اٹھ کے بگولے ساتھ ہوئے
دشت عدم تک جنگل جنگل بھاگ چلا ویرانہ بھی

ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر
اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی

ایک لگی کے دو ہیں اثر اور دونوں حسب مراتب ہیں
لو جو لگائے شمع کھڑی ہے رقص میں ہے پروانہ بھی

دونوں جولاں گاہ جنوں ہیں بستی کیا ویرانہ ہے
اٹھ کے چلا جب کوئی بگولا دوڑ پڑا ویرانہ بھی

غنچے چپ ہیں گل ہیں ہوا پر کس سے کہیے جی کا حال
خاک نشیں اک سبزہ ہے سو اپنا بھی بیگانہ بھی

حسن و عشق کی لاگ میں اکثر چھیڑ ادھر سے ہوتی ہے
شمع کا شعلہ جب لہرایا اڑ کے چلا پروانہ بھی

خون ہی کی شرکت وہ نہ کیوں ہو شرکت چیز ہے جھگڑے کی
اپنوں سے وہ دیکھ رہا ہوں جو نہ کرے بیگانا بھی

دور مسرت آرزوؔ اپنا کیسا زلزلہ آگیں تھا
ہاتھ سے منہ تک آتے آتے چھوٹ پڑا پیمانہ بھی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse