اُٹھے نہ چھوڑ کے ہم آستانِ بادہ فروش

اُٹھے نہ چھوڑ کے ہم آستانِ بادہ فروش
by مصطفٰی خان شیفتہ

اُٹھے نہ چھوڑ کے ہم آستانِ بادہ فروش
طلسمِ ہوش ربا ہے دکانِ بادہ فروش

کھلا جو پردہ روئے حقائقِ اشیاء
کھلی حقیقتِ رازِ نہانِ بادہ فروش

فسردہ طینتی و کاہلی سے ہم نے کبھی
شباب میں بھی نہ دیکھی دکانِ بادہ فروش

یقین ہے کہ مئے ناب مفت ہاتھ آئے
یہ جی میں ہے کہ بنوں میہمانِ بادہ فروش

قدح سے دل ہے مراد اور مے سے عشق غرض
میں وہ نہیں کہ نہ سمجھوں زبانِ بادہ فروش

عجب نہیں کہ کسی روز وہ بھی آ نکلیں
کہ ہے گزرگہِ خلق، آستانِ بادہ فروش

مے و سرود کے اسرار آپ آ کر دیکھ
نہ پوچھ مجھ سے کہ ہوں رازدانِ بادہ فروش

شراب دیکھ کہ کس رنگ کی پلاتا ہے
جز اس کے اور نہیں امتحانِ بادہ فروش

تری شمیم نے گلزار کو کیا برباد
تری نگاہ نے کھولی دکانِ بادہ فروش

عبث ہے شیفتہ ہر اک سے پوچھتے پھرنا
ملے گا بادہ کشوں سے نشانِ بادہ فروش

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse