اٹھائیں ہجر کی شب دل نے آفتیں کیا کیا

اٹھائیں ہجر کی شب دل نے آفتیں کیا کیا
by عزیز حیدرآبادی

اٹھائیں ہجر کی شب دل نے آفتیں کیا کیا
امید وصل میں جھیلیں مصیبتیں کیا کیا

وہی ہے جام وہی مے وہی سبو لیکن
بدل گئی ہیں زمانے کی نیتیں کیا کیا

دبی زبان سے کرتے ہیں غیر در پردہ
تمہارے منہ پہ تمہاری شکایتیں کیا کیا

ستم میں لطف، جفا میں ادا نگاہ میں ناز
عتاب میں بھی ہیں پنہاں عنایتیں کیا کیا

کروں میں ان کی شکایت عزیزؔ جھوٹ غلط
گڑھی ہیں دل سے رقیبوں نے تہمتیں کیا کیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse