اٹھا ہے ابر جوش کا عالم لیے ہوئے
اٹھا ہے ابر جوش کا عالم لیے ہوئے
بیٹھا ہوں میں بھی دیدۂ پر نم لیے ہوئے
ساقی کی چشم مست کا عالم نہ پوچھیے
اک اک نگاہ ہے کئی عالم لیے ہوئے
شبنم نہیں گلوں پہ یہ قطرے ہیں اشک کے
گزرا ہے کوئی دیدۂ پر نم لیے ہوئے
طے کر رہا ہوں عشق کی دشوار منزلیں
آہ دراز و گریۂ پیہم لیے ہوئے
اٹھ اے نقاب یار کہ بیٹھے ہیں دیر سے
کتنے غریب دیدۂ پر نم لیے ہوئے
سنتا ہوں ان کی بزم میں چھلکیں گے آج جام
میں بھی چلا ہوں دیدۂ پر نم لیے ہوئے
موتی کی قدر سب کو ہے پھولوں کو دیکھیے
کیا ہنس رہے ہیں قطرۂ شبنم لیے ہوئے
جوش جنوں میں لطف تصور نہ پوچھیے
پھرتے ہیں ساتھ ساتھ انہیں ہم لیے ہوئے
دل کی لگی نہ ان سے بجھی آج تک جلیلؔ
دریا ہیں گرچہ دیدۂ پر نم لیے ہوئے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |