اٹھتی گھٹا ہے کس طرح بولے وہ زلف اٹھا کہ یوں
اٹھتی گھٹا ہے کس طرح بولے وہ زلف اٹھا کہ یوں
برق چمکتی کیونکہ ہے ہنس کے یہ پھر کہا کہ یوں
چوری سے اس کے پاؤں تک پہنچی تھی شب کو کس طرح
آ کہیں ہاتھ مت بندھا کہہ دے اب اے حنا کہ یوں
دن کو فلک پہ کہکشاں نکلے ہے کیونکہ غیر شب
چین جبیں دکھا مجھے اس نے دیا بتا کہ یوں
جیسے کہا کہ عاشقاں رہتے ہیں کیونکہ چاک جیب
اس کو گل چمن دکھا کہہ کے چلی صبا کہ یوں
ہو گئے بر سر خلش لے کے سناں جو خار دشت
کر نے کلام تب لگا قیس برہنہ پا کہ یوں
پوچھے ہے وہ کہ کس طرح شیشہ و جام کا ہے ساتھ
کہہ دے ملا کے چشم سے چشم کو ساقیا کہ یوں
کرتے سفر ہیں کس طرح بحر جہاں سے اے حباب
خیمے کو اپنے لاد کر کر دے یہ عقدہ وا کہ یوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |