اپنا پتہ مجھے بتا بہر خدا تو کون ہے

اپنا پتہ مجھے بتا بہر خدا تو کون ہے  (1926) 
by یاسین علی خاں مرکز

اپنا پتہ مجھے بتا بہر خدا تو کون ہے
تجھ پہ ہیں سارے مبتلا بہر خدا تو کون ہے

نام خدا سنا کیا تیرے سوا نہیں ملا
ساری صفت سے ہے بھرا بہر خدا تو کون ہے

تیرا حسد تو نام تھا ہو گیا بندہ کس طرح
تیری ہی ذات ہے بقا بہر خدا تو کون ہے

تیرے سے ہست کل ہوئی تھی تو عدم میں بے نشاں
ہادی مظل ہے برملا بہر خدا تو کون ہے

مالک دو جہاں ہے تو چاہے جسے عطا کرے
کر دے گدا کو بادشا بہر خدا تو کون ہے

تیرے کرم سے اے شہا میں نے خدا نما ہوا
تھا تو فنا بقا ملا بہر خدا تو کون ہے

مرکزؔ جملہ کائنات مظہر ذات کبریا
تیرے سوا نہیں ہوا بہر خدا تو کون ہے

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 97 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse