اپنی نظر میں ہیچ ہے سارے جہاں کی سیر
اپنی نظر میں ہیچ ہے سارے جہاں کی سیر
دل خوش نہ ہو تو کس کا تماشہ کہاں کی سیر
اب تک تو دیکھتے رہے جوبن بہار کا
آئندہ ہم کریں گے تمہاری خزاں کی سیر
دنیا کے دیکھنے کے لیے آنکھ چاہیے
جنت کی سیر سے ہے سوا اس مکاں کی سیر
کچھ جھومتے ہیں نشے میں کچھ ہیں گرے پڑے
کچھ اور ہی ہے محفل پیر مغاں کی سیر
کیوں دیکھنے لگے مری چشم پر آب کو
دریا پہ آپ کیجیے آب رواں کی سیر
کیوں آدمی کو عالم بالا کی ہو ہوس
بڑھ کر نہیں زمین سے کچھ آسماں کی سیر
دلی میں پھول والوں کی ہے ایک سیر داغؔ
بلدے میں ہم نے دیکھ لی سارے جہاں کی سیر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |