اپنی وہ بے ثبات ہستی ہے
اپنی وہ بے ثبات ہستی ہے
کہ سدا نیستی ہی ہنستی ہے
نام سنتے ہو جس کا ویرانہ
وہی سودائیوں کی بستی ہے
شمع سے ہاتھ کھینچ اے گل گیر
اتنی بھی کیا دراز دستی ہے
چشم وحدت سے گر کوئی دیکھے
بت پرستی بھی حق پرستی ہے
اپنے ابر مژہ سے اے ؔجوشش
جائے آب آگ ہی برستی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |