اپنے جوار میں ہمیں مسکن بنا دیا
اپنے جوار میں ہمیں مسکن بنا دیا
دشمن کو اور دوست نے دشمن بنا دیا
مشاطہ نے مگر عملِ سیمیا کیا
گل برگ کو جو غنچۂ سوسن بنا دیا
دامن تک اس کے ہائے نہ پہنچا کبھی وہ ہاتھ
جس ہاتھ نے کہ جیب کو دامن بنا دیا
دیکھا نہ ہو گا خواب میں بھی یہ فروغِ حسن
پردے کو اس کے جلوے نے چلمن بنا دیا
تم لوگ بھی غضب ہو کہ دل پر یہ اختیار
شب موم کر لیا، سحر آہن بنا دیا
پروانہ ہے خموش کہ حکمِ سخن نہیں
بلبل ہے نغمہ گر کہ نوا زن بنا دیا
صحرا بنا رہا ہے وہ افسوس شہر کو
صحرا کو جس کے جلوے نے گلشن بنا دیا
مشاطہ کا قصور سہی سب بناؤ میں
اس نے ہی کیا نگہ کو بھی پر فن بنا دیا
اظہارِ عشق اس سے نہ کرنا تھا شیفتہ
یہ کیا کیا کہ دوست کو دشمن بنا دیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |