اپنے رہنے کا ٹھکانا اور ہے

اپنے رہنے کا ٹھکانا اور ہے
by جلیل مانکپوری

اپنے رہنے کا ٹھکانا اور ہے
یہ قفس یہ آشیانا اور ہے

موت کا آنا بھی دیکھا بارہا
پر کسی پر دل کا آنا اور ہے

ناز اٹھانے کو اٹھاتے ہیں سبھی
اپنے دل کا ناز اٹھانا اور ہے

درد دل سن کر تمہیں نیند آ چکی
بندہ پرور یہ فسانا اور ہے

رات بھر میں شمع محفل جل بجھی
عاشقوں کا دل جلانا اور ہے

ہم کہاں پھر باغباں گلشن کہاں
ایک دو دن آب و دانا اور ہے

بھولی بھولی ان کی باتیں ہو چکیں
اب خدا رکھے زمانا اور ہے

چھوڑ دوں کیوں کر در پیر مغاں
کوئی ایسا آستانا اور ہے

یار صادق ڈھونڈتے ہو تم جلیلؔ
مشفق من یہ زمانا اور ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse