اچھا ہوا یہ وقت تو آنا ضرور تھا

اچھا ہوا یہ وقت تو آنا ضرور تھا
by میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی

اچھا ہوا یہ وقت تو آنا ضرور تھا
مدت سے کش مکش میں دل ناصبور تھا

دنیا کا ہوشیار بڑا ذی شعور تھا
جب تک مرے کہے میں دل ناصبور تھا

میرا قصور میری نظر کا قصور تھا
وہ جس قدر قریب تھا اتنا ہی دور تھا

اچھا ہوا جو دل کی تڑپ اور بڑھ گئی
جانا بھی ان کی بزم میں مجھ کو ضرور تھا

اس بے نشاں کا آج نشاں ڈھونڈتے ہیں آپ
سنیے وہی جو نازش اہل قبور تھا

وہ دور میری عمر کا تھا یادگار دور
جس میں کہ تیرے حسن پہ مجھ کو غرور تھا

لے آیا کون گور غریباں میں کھینچ کر
کوسوں ابھی میں منزل مقصد سے دور تھا

واعظ نے ذکر وعدۂ فردوس کیوں کیا
اس رند سے جو نشۂ وحدت سے چور تھا

اب آ کے میری لاش سے فرما رہے ہیں وہ
عالمؔ یہ تیری عقل و فراست سے دور تھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse