اچھی تربیت کے فوائد کے بیان میں

اچھی تربیت کے فوائد کے بیان میں
by ماسٹر رام چندر
319285اچھی تربیت کے فوائد کے بیان میںماسٹر رام چندر

واضح ہو کہ اچھی تربیت سے فقط یہ مراد نہیں ہے کہ آدمی لکھنا اور پڑھنا خط وغیرہ کا سیکھ جاوے بلکہ اس سے مراد وہ عقل اور شعور اور استعداد بھی ہے جو بہ سبب تحصیل کتب فاضلوں اور حکماء سے اور صحبت عاقلوں اور عالموں کی سے حاصل ہوتی ہے۔ پس جب یہ مراد ہوئی تربیت سے، تو جو آدمی اپنے تئیں جاہل اور ناخواندوں سے بزرگی دیا چاہے اسے لازم ہے کہ حاصل کرنے اچھی تربیت میں کوشش کرے۔

اگر اس دنیا میں ہم خلقت کو مشاہدہ کریں تو ہمیں یہ بات دریافت ہوگی کہ گو اچھی تربیت یافتوں کو دولت حاصل نہ ہو لیکن اس میں شک نہیں کہ ان کی ہرجائے عزت و تعظیم کی جاوے گی۔ جو آدمی اس سے کلام کرے گا، اسے اس کی خوش اخلاقی اور علمیت کو دیکھ کر اس سے بہت خوش ہوگا اور اس کی صحبت کا آرزو مند ہوگا۔ خلاف اس کے جو آدمی جاہل مطلق اور ناتربیت یافتہ ہیں، ان کے کلام اور حرکات ایسے ہوتے ہیں کہ ان سے ہر آدمی نفرت کرنے لگتا ہے اور جہاں ایسے شخص جاتے ہیں کوئی ان کی تواضع نہیں کرتا بلکہ ان کے بیٹھنے کے بھی خواہاں نہیں ہوتے۔

حقیقت یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے سب انسانوں کو تھوڑی بہت عقل اور تمیز دی ہے لیکن بعض کو اچھی تربیت ملتی ہے اور بعض کو بالکل تربیت نہیں ہوتی۔ اس باعث سے انسان میں اختلاف پڑ جاتا ہے۔ ایک آدمی منشی ہے اور ایک چپراسی۔ پس ان دونوں میں فقط فرق یہ ہے کہ ایک ان میں سے تربیت یافتہ اور دوسرا ناتربیت یافتہ ہے۔ عقل جو انسان میں پائی جاتی ہے، وہ مانند ایک پتھر سنگ مرمر کے ہے، جو کان میں مٹی سے آلودہ دبا ہوا ہے اور تربیت مانند اس کاری گر کے ہے کہ جو پتھر کو نکال کر صاف اور درست کیا کرتا ہے۔ جب تک سنگ مرمر کو کاری گر مذکور کان میں سے نکال کر صاف نہیں کرتا ہے، تب تک خوبصورتی اور رونق سنگ مرمر کی کہاں ظاہر ہوتی ہے؟ اسی طور سے جب تک کہ آدمی کو تربیت نہیں ہوتی ہے اس وقت تک عقل اور صفات جبلی جو اللہ تعالیٰ نے اسے بخشے ہیں ظاہر نہیں ہوتے ہیں۔

ممکن ہے کہ ہزارہا گنوار اور دیہاتی ایسے گذرے ہوں گے کہ ان کو خدا تعالیٰ نے اسی قدر ذہن اور عقل بخشی ہو جیسی کہ حکیم ارسطو کو حاصل تھی۔ اب کوئی پوچھے کیوں حکیم ارسطو نامی حکیم ہوا، اور گنوار مذکور حالت جہالت ہی میں مرگیا اور نام و نشان بھی نہیں رہا۔ اس کا جواب فقط یہ ہے کہ ارسطو کو تربیت ہوئی تھی اور اس کو نہیں ہوئی۔ ارسطو نے کتب اور تصنیفات حکمائے گذشتہ کو ملاحظہ کیا اور گنوار مذکور کاشتکاری کرتے کرتے مر گیا۔ اگر مانند ارسطو کے ان کو بھی قابو واسطے تحصیل کتب وغیرہ کے ہوتا تو شاید وہ گنوار ارسطو سے بھی سبقت لے جاتا۔ ایک شاعر نے سچ کہا ہے کہ گنواروں اور غریبوں کے ذہن اور عقل سے کون آگاہ ہوتا ہے۔ وہ مانند ان جواہرات کے ہیں جو اندر سمندر کے پڑے ہوئے ہیں اور انسان کی نگاہ سے پوشیدہ ہیں یا وہ مانند ان خوشبودار پھولوں کے ہیں جو دشت لق و دق میں شگفتہ ہیں ان کی خوشبو کو کون سونگھتا ہے۔

تربیت ایک ایسی شیٔ ہے کہ وہ ورثے میں نہیں حاصل ہوتی ہے یعنی یہ بات غیرممکن ہے کہ اگر باپ تربیت یافتہ ہو تو بالضرور اس کا بیٹا بھی تربیت یافتہ ہی ہو۔ یہاں سے یہ بات ہر انسان پر فرض ہے کہ اچھی تربیت پانے میں کوشش بلیغ کرے اور اس میں تغافلی اور کاہلی کو جائے نہ دے۔ اہل یونان تربیت کے فوائد سے بہت آگاہ تھے۔ وہ اپنے بچوں اور خوردوں کو اچھی طرح سے تربیت کرنے میں ہمیشہ کوشش کرتے تھے۔ چنانچہ بادشاہ فیلقوس نے جو باپ شاہنشاہ سکندر رومی کا تھا، اپنے لڑکے شاہنشاہ یعنی سکندر کے واسطے تربیت کے ارسطو کو مقرر کیا اور فی الحقیقت جیسی تربیت اس حکیم اعظم فاضل سے پائی تھی، وہ سب پر روشن ہے۔ اس سارے مضمون سے یہ غرض ہے کہ یہ بات آدمیوں پر فرض ہے کہ اپنے لڑکوں اور بچوں کو خوب اچھی طرح سے تربیت کریں اور انھیں سب علوم سکھاویں اور کرنے اس ترکیب سے آئندہ کو بہت فائدہ ہوگا۔


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.