اڑ کر سراغ کوچۂ دلبر لگائیے
اڑ کر سراغ کوچۂ دلبر لگائیے
کس طرح دونوں بازوؤں میں پر لگائیے
اک تیر دل پر ایک جگر پر لگائیے
حصہ لگائیے تو برابر لگائیے
پھولوں میں توپئے مجھے نازک دماغ ہوں
للہ اس لحد میں نہ پتھر لگائیے
جب بزم یار میں ہے تکلف رسائی کا
خلوت سرائے خاص میں بستر لگائیے
ہر دم کیا کرے رگ جاں مرحبا کا شور
اس نوک جھونک سے کوئی نشتر لگائیے
برسوں سے بے قرار ہے تسکین کے لیے
جھکئے ذرا جگر سے مرے سر لگائیے
کیا بستنی قفس کی یہ بلبل کو بھیجئے
حصے میں اس کے پھولوں کی چادر لگائیے
جا اپنے دل میں دیجئے مجھ صاف قلب کو
آئینے میں شبیہ سکندر لگائیے
یاور نصیب ہو تو حسینوں کو چاہئے
دل ان سے آزما کے مقدر لگائیے
اکثر وہ کہتے ہیں کہ جو بوسہ طلب کرے
اس گفتگو پہ منہ اسے کیوں کر لگائیے
آئے دہان زخم سے آواز اور اور
اس اس ادا و ناز سے خنجر لگائیے
پرزے مرے اڑائیے بھیجا ہے میں نے خط
بے جرم کیوں کباب کبوتر لگائیے
صورت جو ایک ایک کی تکتا ہے آئنہ
حسرت یہ ہے سراغ سکندر لگائیے
ہیں آپ تو تمام خدائی کے ناخدا
میرا جہاز بھی لب کوثر لگائیے
برہم مزاج ہو کے وہ برگشتگی کرے
دفتر میں جس کے فرد مقدر لگائیے
دولت جو مجھ غریب کی لوٹی ہے آپ نے
کیا کیجئے گا حصۂ لشکر لگائیے
جتنوں کی جانیں لیں ہیں انہیں خوں بہا ملے
پورا حساب دیکھ کے دفتر لگائیے
اس گل کی آ ہی جائے گی خوشبو دماغ میں
چلیے ریاض عشق میں چکر لگائیے
افشا کیا جو عشق تو جھنجھلا کے بولے وہ
لکھوا کے اشتہار یہ گھر گھر لگائیے
سو جا سے دل پھٹا ہے کلیجا ہے چاک چاک
پیوند پھاڑ پھاڑ کے چادر لگائیے
پھر اٹھ کے تیرے ہاتھ سے کٹوائیے گلا
کیوں کر دوبارہ جسم میں پھر سر لگائیے
ساتھ اس قدر ہیں اس شہ خوباں کے سرفروش
برسوں حساب کثرت لشکر لگائیے
کہتے ہیں لخت دل کو وہ بازار حسن میں
سودا یہ میرے اردو سے باہر لگائیے
مجھ سے لگاوٹ آپ کی شمشیر کرتی ہے
مرتا ہوں اس پہ اس کو مرے سر لگائیے
سیلاب اشک نے مرے رستے کیے ہیں بند
کشتی منگا کے متصل در لگائیے
خلعت شہید ناز کو بھجواتے ہیں جواب
کشتی میں پہلے پھولوں کی چادر لگائیے
پہونچا کے خط حلال ہوا ہے یہ اے شرفؔ
آنکھوں سے لے کے خون کبوتر لگائیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |