اڑ کر سراغ کوچۂ دلبر لگائیے

اڑ کر سراغ کوچۂ دلبر لگائیے
by آغا حجو شرف
303884اڑ کر سراغ کوچۂ دلبر لگائیےآغا حجو شرف

اڑ کر سراغ کوچۂ دلبر لگائیے
کس طرح دونوں بازوؤں میں پر لگائیے

اک تیر دل پر ایک جگر پر لگائیے
حصہ لگائیے تو برابر لگائیے

پھولوں میں توپئے مجھے نازک دماغ ہوں
للہ اس لحد میں نہ پتھر لگائیے

جب بزم یار میں ہے تکلف رسائی کا
خلوت سرائے خاص میں بستر لگائیے

ہر دم کیا کرے رگ جاں مرحبا کا شور
اس نوک جھونک سے کوئی نشتر لگائیے

برسوں سے بے قرار ہے تسکین کے لیے
جھکئے ذرا جگر سے مرے سر لگائیے

کیا بستنی قفس کی یہ بلبل کو بھیجئے
حصے میں اس کے پھولوں کی چادر لگائیے

جا اپنے دل میں دیجئے مجھ صاف قلب کو
آئینے میں شبیہ سکندر لگائیے

یاور نصیب ہو تو حسینوں کو چاہئے
دل ان سے آزما کے مقدر لگائیے

اکثر وہ کہتے ہیں کہ جو بوسہ طلب کرے
اس گفتگو پہ منہ اسے کیوں کر لگائیے

آئے دہان زخم سے آواز اور اور
اس اس ادا و ناز سے خنجر لگائیے

پرزے مرے اڑائیے بھیجا ہے میں نے خط
بے جرم کیوں کباب کبوتر لگائیے

صورت جو ایک ایک کی تکتا ہے آئنہ
حسرت یہ ہے سراغ سکندر لگائیے

ہیں آپ تو تمام خدائی کے ناخدا
میرا جہاز بھی لب کوثر لگائیے

برہم مزاج ہو کے وہ برگشتگی کرے
دفتر میں جس کے فرد مقدر لگائیے

دولت جو مجھ غریب کی لوٹی ہے آپ نے
کیا کیجئے گا حصۂ لشکر لگائیے

جتنوں کی جانیں لیں ہیں انہیں خوں بہا ملے
پورا حساب دیکھ کے دفتر لگائیے

اس گل کی آ ہی جائے گی خوشبو دماغ میں
چلیے ریاض عشق میں چکر لگائیے

افشا کیا جو عشق تو جھنجھلا کے بولے وہ
لکھوا کے اشتہار یہ گھر گھر لگائیے

سو جا سے دل پھٹا ہے کلیجا ہے چاک چاک
پیوند پھاڑ پھاڑ کے چادر لگائیے

پھر اٹھ کے تیرے ہاتھ سے کٹوائیے گلا
کیوں کر دوبارہ جسم میں پھر سر لگائیے

ساتھ اس قدر ہیں اس شہ خوباں کے سرفروش
برسوں حساب کثرت لشکر لگائیے

کہتے ہیں لخت دل کو وہ بازار حسن میں
سودا یہ میرے اردو سے باہر لگائیے

مجھ سے لگاوٹ آپ کی شمشیر کرتی ہے
مرتا ہوں اس پہ اس کو مرے سر لگائیے

سیلاب اشک نے مرے رستے کیے ہیں بند
کشتی منگا کے متصل در لگائیے

خلعت شہید ناز کو بھجواتے ہیں جواب
کشتی میں پہلے پھولوں کی چادر لگائیے

پہونچا کے خط حلال ہوا ہے یہ اے شرفؔ
آنکھوں سے لے کے خون کبوتر لگائیے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.