اک آفت جاں ہے جو مداوا مرے دل کا

اک آفت جاں ہے جو مداوا مرے دل کا
by امیر اللہ تسلیم

اک آفت جاں ہے جو مداوا مرے دل کا
اچھا کوئی پھر کیوں ہو مسیحا مرے دل کا

کیوں بھیڑ لگائی ہے مجھے دیکھ کے بیتاب
کیا کوئی تماشا ہے تڑپنا مرے دل کا

بازار محبت میں کمی کرتی ہے تقدیر
بن بن کے بگڑ جاتا ہے سودا مرے دل کا

گر وہ نہ ہوئے فیصلۂ حشر پہ راضی
کیا ہوگا پھر انجام خدایا مرے دل کا

کیا کوہ کن و قیس کو دیتے دم تقسیم
حصہ تھا غم حوصلہ فرسا مرے دل کا

گو میں نہ رہوں محفل جاناں میں مگر روز
تسلیمؔ یوں ہی ذکر رہے گا مرے دل کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse