اک ڈھب پہ کبھو وہ بت خودکام نہ پایا
اک ڈھب پہ کبھو وہ بت خودکام نہ پایا
دیکھا میں جو کچھ صبح اسے شام نہ پایا
اپنی ہی ہوس کے یہ سب الجھاؤ ہیں ورنہ
اس راہ میں ہم نے تو کہیں دام نہ پایا
وہ نخل خزاں دیدہ ہوں اس دشت میں جس کے
سایہ میں کسی پہنچے نے بسرام نہ پایا
وہ بے سر و تن ہے یہ زمانہ کہ بہ ایں غور
جس کا میں کچھ آغاز اور انجام نہ پایا
فہرست میں خوبان وفادار کی پیارے
دیکھی تو کہیں اس میں ترا نام نہ پایا
معمول تھا دشنام عوض اپنی دعا کا
سو وہ بھی کئی دن سے میں انعام نہ پایا
یک شب وہ کہیں گود میں سویا تھا سو قائمؔ
پھر بالش مخمل سے میں آرام نہ پایا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |