اگرچہ عشق میں آفت ہے اور بلا بھی ہے
اگرچہ عشق میں آفت ہے اور بلا بھی ہے
نرا برا نہیں یہ شغل کچھ بھلا بھی ہے
اس اشک و آہ میں سودا بگڑ نہ جائے کہیں
یہ دل کچھ آب رسیدہ ہے کچھ جلا بھی ہے
یہ آرزو ہے کہ اس بے وفا سے یہ پوچھوں
کہ میرے بے مزا رکھنے میں کچھ مزا بھی ہے
یہ کون ڈھب ہے سجن خاک میں ملانے کا
کسو کا دل کبھو پانو تلے ملا بھی ہے
یقیںؔ کا شور جنوں سن کے یار نے پوچھا
کوئی قبیلۂ مجنوں میں کیا رہا بھی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |