اگر اس کا مرا جھگڑا یہیں طے ہو تو اچھا ہو
اگر اس کا مرا جھگڑا یہیں طے ہو تو اچھا ہو
خدا جانے خدا کے سامنے کل کیا نہ ہو کیا ہو
گزرتی ہے بشر کی زندگی کس وہم باطل میں
جو ایسا ہو تو ایسا ہو جو ایسا ہو تو ایسا ہو
شب خلوت یہ کہنا بار بار اس کا بناوٹ سے
ہمیں چھیڑے تو غارت ہو ہمیں دیکھے تو اندھا ہو
وہ ہر دم کی عیادت سے مری گھبرا کے کہتے ہیں
غضب میں جان ہے اپنی نہ مر جائے نہ اچھا ہو
وہ فرماتے ہیں مجھ کو دیکھ کر میں یوں نہ مانوں گا
اگر یہ نوحؔ ہے طوفان اٹھائے غرق دنیا ہو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |