اگر دل عشق سیں غافل رہا ہے
اگر دل عشق سیں غافل رہا ہے
تو اپنے فن میں نا قابل رہا ہے
دل و دیں سے تو گزرا اب خودی چھوڑ
گھر اس مہ کا اب اک منزل رہا ہے
جدائی کے کرے تدبیر اب کون
یہ دل تھا سو اسی سیں مل رہا ہے
نہ باندھو صید رہنے کا نہیں باز
دل اپنی حرکتوں سیں ہل رہا ہے
مثل برق دنیا سے گزر جا
ایتا کیوں اس میں بے حاصل رہا ہے
نہیں تضمین کا ذوق آبروؔ کو
کہاں اس کوں دماغ و دل رہا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |