اگر وہ گلبدن مجھ پاس ہو جاوے تو کیا ہووے

اگر وہ گلبدن مجھ پاس ہو جاوے تو کیا ہووے
by داؤد اورنگ آبادی

اگر وہ گلبدن مجھ پاس ہو جاوے تو کیا ہووے
زمین دل میں تخم عشق بو جاوے تو کیا ہووے

صنم تجھ زلف کے زنار کے رشتے میں آ زاہد
اپس کے سبحہ گردانی کوں کھو جاوے تو کیا ہووے

پلا جام شراب عیش وو ساقیٔ بزم آرا
غبار غم کوں لوح دل سوں ہو جاوے تو کیا ہووے

بیاں کرتا ہوں میں تجھ زلف مشکیں کا صنم نس دن
ختن میں گر سخن میرے کی بو جاوے تو کیا ہووے

سدا مشق جنون عشق میں رہتا ہے سودائی
اگر داؤدؔ کی یو زشت خو جاوے تو کیا ہووے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse