اہل الفت سے تنے جاتے ہیں
اہل الفت سے تنے جاتے ہیں
روز روز آپ بنے جاتے ہیں
ذبح تو کرتے ہو کچھ دھیان بھی ہے
خون میں ہاتھ سنے جاتے ہیں
روٹھنا ان کا غضب ڈھائے گا
اب وہ کیا جلد منے جاتے ہیں
کچھ ادھر دل بھی کھنچا جاتا ہے
کچھ ادھر وہ بھی تنے جاتے ہیں
کیوں نہ غم ہو مجھے رسوائی کا
وہ مرے ساتھ سنے جاتے ہیں
دل نہ گھبرائے کہ وہ روٹھ گئے
چار فقروں میں منے جاتے ہیں
ہے یہ مطلب نہیں چھیڑے کوئی
بیٹھے بیٹھے وہ تنے جاتے ہیں
بے وفاؤں سے وفا کی امید
نوحؔ نادان بنے جاتے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |