اہل دل اہل نظر شام و سحر رویا کیے
اہل دل اہل نظر شام و سحر رویا کیے
درد کے پتلے تھے آخر عمر بھر رویا کیے
حال اہل درد نے ان کو رلایا عمر بھر
جن کو حیرت تھی یہ کیونکر رات بھر رویا کیے
دل کی مجبوری پہ رونے سے جو میں روکا گیا
بے بسی سے دل کے چھالے پھوٹ کر رویا کیے
پاس ناموس محبت نے کچھ ایسا کہہ دیا
سر جھکا کر ہم تو وہ منہ پھیر کر رویا کیے
جن سے ہلچل تھی جہان عاشقی میں میرے بعد
ایسے نالوں کے لیے درد و اثر رویا کیے
ذوق گریہ دل کو تھا جانے وہی اس کا سبب
کیا بتائیں تجھ کو ہم کیوں عمر بھر رویا کیے
ہم نہ کہتے تھے کہ اتنی سختیاں اچھی نہیں
تم نہ بیخودؔ کو مٹا کر عمر بھر رویا کیے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |