ایام شباب اپنے بھی کیا عیش اثر تھے

ایام شباب اپنے بھی کیا عیش اثر تھے
by نظیر اکبر آبادی

ایام شباب اپنے بھی کیا عیش اثر تھے
کہتے ہیں جنہیں عیب وہ اس وقت ہنر تھے

دن رات وہ محبوب میسر تھے کہ جن کی
زلفیں الم شام تھیں رخ رشک سحر تھے

ساقی کے ادھر جام ادھر ناز و ادا سے
جادو نظراں خوش نگہاں پیش نظر تھے

محفل سے جو اٹھتے تھے ذرا ہم تو لپٹ کر
نازک بدناں مو کمراں دست و کمر تھے

ہم راہ گل انداموں کے ہو خرم و خنداں
باغ و چمن و گلشن و بستاں میں گزر تھے

کیا شور تھے کیا زور تھے ہر لحظہ اہا ہا
کیا ولولے کیا قہقہے بے خوف و خطر تھے

دکھلا کے جھمک جاتے رہے دم میں نظیرؔ آہ
کیا جانے وہ دن برق تھے یا مثل شرر تھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse