ایسا کہاں حباب کوئی چشم تر کہ ہم
ایسا کہاں حباب کوئی چشم تر کہ ہم
لب خشک یہ محیط ہے کب اس قدر کہ ہم
ایسا نہیں غریب کوئی گھر بہ گھر کہ ہم
ایسا نہیں خراب کوئی در بدر کہ ہم
مدام ہی مشبک مژگان یار ہے
لیکن نہ اس قدر رہے خستہ جگر کہ ہم
گو آج ہم ہیں بے سر و پا دیکھیے کہ کل
یہ راہ پل صراط کرے شیخ سر کہ ہم
ہم بحثتے ہیں چاک گریباں پہ تیرے ساتھ
اور دیکھیے کہ ہم سے رہے تو سحر کہ ہم
روتے عدم سے آئے تھے روتے ہی جائیں گے
ایسا نہیں ازل سے کوئی نوحہ گر کہ ہم
دنیا کہ نیک و بد سے مجھے کچھ خبر نہیں
اتنا نہیں جہاں میں کوئی بے خبر کہ ہم
پوچھا میں اس سے کون ہے قاتل مرا بتا
کہنے لگا پکڑ کے وہ تیغ و سپر کہ ہم
دیواں ہمارا غور سے تاباںؔ تو دیکھ تو
رکھتا ہے کب محیط یہ گنج گہر کہ ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |