ایسی حالت نہ ہو کسی دل کی
ایسی حالت نہ ہو کسی دل کی
کیا کہوں ہائے بے بسی دل کی
لطف دیکھو کہ وہ سنورتا ہے
لے کے ہاتھوں میں آرسی دل کی
اپنی حالت سنائے وہ کیوں کر
کون سمجھے گا فارسی دل کی
یہ ستم دیکھیے وہ کہتا ہے
غیر ممکن ہے واپسی دل کی
زخم خنداں کو دیکھتے جاؤ
تم نے دیکھی نہیں ہنسی دل کی
دل کا آئینہ روئے عاشق ہے
اس سے ظاہر ہے بے کسی دل کی
اے جمیلہؔ بٹھاؤ حسرت کو
وہ بھی مہمان ہے اسی دل کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |