ایڈیٹر صاحب کا کمرہ

ایڈیٹر صاحب کا کمرہ
by مرزا فرحت اللہ بیگ
319552ایڈیٹر صاحب کا کمرہمرزا فرحت اللہ بیگ

(۱)

ایڈیٹر صاحب کرسی پر بیٹھے ہیں۔ سامنے میز لگی ہے۔ ایک ہاتھ میں جلتی ہوئی بیڑی ہے دوسرے میں دیا سلائی کی ڈبیہ۔ میز کے دوسری طرف مدد گار صاحب سر جھکائے کچھ لکھ رہے ہیں۔ ابھی ابھی ڈاک آئی ہے۔ ایڈیٹر صاحب ایک خط اٹھاتے ہیں، پڑھتے ہیں اور رکھ دیتے ہیں۔ دوسرا اٹھاتے ہیں، دیکھتے ہیں، ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور پھینک دیتے ہیں۔ بڑے زور دار آدمی ہیں۔ گورنمنٹ ان کی بڑی قدر کرتی ہے۔ لاٹ صاحب کرسی دیتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر صاحب ہاتھ ملاتے ہیں۔ یہ بھی کسی بھلے مانس کو خاطر میں نہیں لاتے۔ کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے۔ ان سے نامہ نگار اور یہ نامہ نگاروں سے سخت بیزار ہیں۔ سرکار کی امداد ہے جو ان کا اخبار چل رہا ہے۔ ورنہ کبھی کا بند ہو گیا ہوتا، سچ ہے گورنمنٹ کی کمائی عہدے داروں اور اخباروں نے کھائی۔

(۲)

ایڈیٹر صاحب مددگار صاحب! آپ نے آج کی ڈاک دیکھی۔مددگار صاحب جی نہیں، آپ ہی تو کھول رہے ہیں۔ایڈیٹر میں تو اخبار اور رسالہ نکال کر جنجال میں پڑ گیا۔ ان نامہ نگاروں نے ناک میں دم کر دیا ہے۔ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہی بل پر اخبار چلتا ہے۔ قسم خدا کی، اگر ان کے مضمون بغیر ترمیم کیے جیسے کے ویسے چھاپ دوں تو آج ان سب کی قلعی کھل جاتی ہے۔ جو صاحب ہیں یہی لکھتے ہیں کہ مضمون لکھنے کی فرصت نہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ مضمون لکھنے میں ایسی کون سی دماغ سوزی کی ضرورت ہے۔ کوئی سمجھ کی بات لکھنی ہوتو واقعی دماغ پر زور ڈالنا پڑے۔ یہاں تو میاں کام کو نہیں پوچھتے نام کو پوچھتے ہیں۔ یہ تھوڑی دیکھتے ہیں کہ کیا لکھا ہے۔ یہ دیکھتے ہیں کہ کس نے لکھا ہے۔اب یہ دیکھئے شوکت تھانوی صاحب کیا فرماتے ہیں۔ ’’حسامن۔‘‘ خدا معلوم یہ جان من لکھا ہے یا جناب من۔ ہا ں تو لکھتے ہیں، ’’تسلیم! مجھ پر سر پنچ کا بار اتنا پڑ گیا ہے کہ دوسرے کسی رسالے یا اخبار میں مضمون لکھنا میرے لیے دشوار ہی نہیں نا ممکن ہے۔ اگر آپ ہی میری مدد فرمائیں تو باعث ممنونیت ہوگا۔ امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے۔‘‘ دیکھی آپ نے ان کی چال۔ دو پیسے کا کارڈ لکھا۔ اور دو کام نکال لیے۔ ایک تو مضمون لکھنے سے انکار کر گئے۔ دوسرے خود مجھ سے مضمون لکھنے کا تقاضا کر بیٹھے۔ خیر کئی مضمون بھیج چکے ہیں۔ ان کی خواہش بھی پوری کر دو۔ احسان الرحمن مرحوم کا جو مضمون پچھلے مہینے آیا تھا، وہ میرے نام سے بھیج دو۔مددگار ممکن ہے کہ احسان کا کوئی عزیز یا رشتہ دار بھانڈا پھوڑ دے۔ایڈیٹر مہربانی کر کے آپ مجھے مشورہ دینے کی تکلیف نہ اٹھایا کیجئے۔ میں نے آپ کو اپنا مدد گار مقرر کیا ہے نہ کہ اتالیق۔ افسوس ہے کہ آپ اتنے دن سے یہاں کام کر رہے ہیں اور ابھی تک اسی طرح کورے کے کورے ہیں۔ احسان کے بھائی بند رونے پیٹنے میں لگے ہیں یا اخبار پڑھنے میں۔ تھوڑے دنوں میں پرچہ پرانا ہو جائے گا، پھر خدا نخواستہ اس کو پڑھتا ہی کون ہے۔ لانا یہ سامنے والا خط دینا۔ اوہو آپ ہیں۔ خدا کسی کو ایسا بھیک منگا نہ کرے۔ مضمون لکھتے ہیں تو ہم پر ایسا کون سا احسان کرتے ہیں۔ اجی احسان ہمارا ہے کہ ان کا مضمون چھاپ بھی دیتے ہیں۔ ورنہ کسی اور کو ایسا مضمون بھیجیں تو الٹا منہ پر مارے اور ان حضرت کی حالت یہ ہے کہ مضمون بھیجنا اور ساتھ ہی ہاتھ پھیلا دیا کہ لاؤ کچھ دلواؤ۔ اجی مدد گار صاحب آج کوئی منی آرڈر آیا ہے۔مددگار جی ہاں سوا چھے روپے کا ایک منی آرڈر آیا ہے۔ایڈیٹر اچھا تو، سوا دو روپے ان کو بھیج دو اور باقی چار روپے کاغذ والے کے حساب میں دے دو۔ دہن سگ بہ لقمہ دوختہ بہ۔مددگار پطرس صاحب کا خط آیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ میری کتاب کا اشتہار اخبار میں چھاپ دیجئے۔ روپیہ نہیں بھیجا۔ شاید مفت چھپوانا چاہتے ہیں۔ایڈیٹر اخبار سب بھر گیا یا کچھ حصہ باقی ہے۔مددگار ابھی چار صفحے خالی ہیں۔ایڈیٹر تو ان کی کتاب کا اشتہار جلی قلم سے پورے ایک صفحے میں چھاپ دو اور لکھ دو کہ آپ کی فرمائش کی تعمیل کر دی گئی۔ مگر آپ نے بہت تنگ وقت میں اشتہار چھاپنے بھیجا ہے۔ پورا ایک مضمون حذف کر کے اس اشتہار کے لیے جگہ نکالی ہے۔ آپ نے عرصے سے ہم کوکوئی مضمون سر فراز نہیں فرمایا۔ لوگ بے حد مشتاق ہیں۔ امید ہے کہ اس پرچے کو بھی کچھ عنایت کر کے ممنون فرمائیے گا۔ اور ہاں تمکین کاظمی صاحب کو ابھی لکھ دو کہ بعض اصحاب نے ’’نیازمندان لاہور‘‘ بن کر آپ کی ذات پر جو حملہ کیا ہے اس کا جواب ابھی تک آپ نے نہیں دیا۔ براہ کرم اس بارے میں خاموشی اختیار نہ کیجئے۔ آپ اردو ا دب کی روح رواں ہیں۔ آپ کاا س طرح چپ ہو جانا اچھا نہیں۔ آج یہ لکھا گیا ہے کل اس سے زیادہ لکھا جائے گا۔ آپ بھی لکھئے اور ضرور لکھئے۔مددگار مگر یہ تو لڑائی ہو جانے کی بات ہے۔ایڈیٹر اور میرا مقصد مدد گار سوائے اس کے کیا ہے۔ یہی لڑائیاں تو اخبار اور رسالوں کی جان ہوتی ہیں۔ مجرم علی چشتی کیوں بڑھے۔۔۔ مولوی نذیر احمد سے لڑ کر۔ مرزا حیرت نے کیوں نام پایا۔۔۔ مولانا حالی سے ٹکرا کر۔ میاں تم ان باتوں کو کیا جانو۔ جب تک دو ایک بڑے آدمیوں میں جوتی پیزار نہ ہو جائے، اخبار چلتا تھوڑی ہے۔ ہمت کر کے کسی بڑے آدمی کا خاکہ اڑانا شروع کر و۔ پھر دیکھو تمہارا اخبار کیا زنا زن بکتا ہے، اور کس شوق سے پڑھا جاتا ہے اور جو کہیں تم گالیوں پر اتر آئے تو مزا ہی مزا ہے۔ اگر ہزاروں کی اشاعت نہ ہو جائے تو میرا ذمہ۔ اور ہاں یہ تو بتانا وہ جودھ پور والے چغتائی صاحب کا بھی کوئی خط آیا نہیں۔ مددگار جی نہیں۔ایڈیٹر واللہ! یہ بھی عجیب آدمی ہے۔ ابھی آپ کو پیدا ہو کر ہی کتنے دن ہوئے ہیں جو اتنی مشیخت آ گئی ہے۔ سمجھتے ہوں گے کہ میں بھی کچھ لکھنے لگا ہوں۔ خیر رہنے دو۔ ان کی کتاب روح ظرافت پر وہ ریویو لکھوں گا کہ میاں یاد ہی کریں گے۔ ہم نے بھلے آدمی کے مضمون چھاپ چھاپ کر اور تعریفیں کر کے یہاں تک پہنچایا اور ہماری بلی اور ہمیں سے میاؤں کرنے لگی۔ خدا کی قدرت ہے جو دھ پور کو دیکھو اور اردو زبان کو دیکھو۔ ایک حرف تو صحیح لکھتے نہیں اور اس پر زبان دانی کا یہ دعویٰ ہے کہ معاذ اللہ۔ دیکھنا کل ان کی کتاب اور اردو کی دو تین لغات صبح ہی صبح مجھ کو دے دینا۔ ایک مضمون لکھ کر ان کو ٹھنڈا کیے دیتا ہوں۔ سمجھتے ہوں گے کہ مرزا فرحت للہ بیگ نے دیباچے میں جو تعریف کی ہے تو گویا لفٹننٹ گورنر کا سرٹیفکٹ مل گیا اور ہاں بھئی! مرزا صاحب نے بھی خطوں کا کوئی جواب دیا یا نہیں۔ قسم خدا کی کیا نالائق آدمی ہے۔ اکٹھے چار پوسٹ کارڈ روانہ کر چکا ہوں اور میرے یار نے ایک کا بھی جواب نہیں دیا۔سب سے زیادہ اس شخص کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ واللہ اگر سارے ایڈیٹر اس کے پیچھے پڑ جائیں تو تھوڑے ہی دنوں میں دماغ درست ہو جاتا ہے۔ پرچے بھیجو تو چپکے سے رکھ لیتے ہیں۔ مضمون مانگو تو جواب تک نہیں دیتے۔ لیجئے یہ ہمارے مضمون نگاروں کی تہذیب ہے۔ ارے بھئی مدد گار صاحب دیکھنا۔ ان کے مضامین کے دونوں حصے چھپ کر ریویو کے لے آئے ہیں ذرا سوچ سمجھ کر ریویو کرنا۔ اس شخص سے ابھی بگاڑنا اچھا نہیں، ہاں جب تک آمد تنگ آمد کی نوبت آئے گی اس وقت دیکھا جائےگا۔ آج ایک خط اور لکھ دو۔ اور تھوڑی بہت خوشامد بھی کر دو۔ شاید کوئی مضمون بھیج دیں۔ جواب کے لئے ٹکٹ خط میں نہ رکھنا۔ وہ بندہ خدا ٹکٹ تک ہضم کر جائے گا مگر ہاں ان کے مضمونوں کی غلطیاں جمع کر تے رہو۔ کبھی نہ کبھی کام آئیں گی۔مددگار راشد صاحب تقاضا کر رہے ہیں کہ میری غزلیں بر وقت آپ کے رسالے میں طبع نہیں ہوتیں۔ اس کا کیا جواب دوں۔ایڈیٹر لکھ دو کہ آئندہ انشاء اللہ شکایت کا موقع نہ آئے گا۔ یار من۔ ان شاعروں سے بگاڑنا ٹھیک نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ان کا کلام کوڑی کا م کا نہیں ہوتا، اور نہ کوئی اس کو پڑھتا ہے لیکن رسالے کے کئی صفحہ تو بھر جاتے ہیں۔مددگار انہوں نے اپنی نظم میں پھر گاندھی جی کی تعریف لکھی ہے۔ایڈیٹر بھئی یہ بری بات ہے۔ ایک ہی مضمون پڑھتے پڑھتے طبیعت اکتا جاتی ہے۔ تم یہ کرو کہ ان کی نظم میں جہاں جہاں لفظ ’’گاندھی‘‘ آیا ہے وہاں ’’مالوی‘‘ کر دو۔مددگار اور مالوی بحر میں کیونکر آئے گا۔ایڈیٹر ارے میاں۔ تم بھی بچوں کی سی باتیں کرتے ہو۔ مجھے یہ تو بتاؤ قارئین کرام میں اللہ کے فضل سے نظم کو صحیح پڑھنے والے کتنے ہوتے ہیں اور خدا نخواستہ ان بحروں کو سمجھتا کون ہے۔ اخبار یا رسالے پڑھنے سے یہ مطلب تھوڑی ہوتا ہے کہ زبان درست ہو یا کوئی نصیحت حاصل کی جائے۔ اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح بے کار وقت کٹ جائے۔ اور ہاں تعلیمات کے ڈائرکٹر صاحب کو نہایت ادب سے لکھ دینا کہ ’’گو آپ کے تعلیمی مباحث ہمارے رسالے اور اخبار کے مقاصد میں نہیں آتے لیکن صرف آپ کی خاطر ہم اس قسم کے مضمون چھاپ رہے ہیں۔‘‘ اس کے بعد اپنے اخبار کے وسیع اثرات کا ذکر کر کے ضمناً یہ بھی بتا دینا کہ اسکولوں کے لیے اخبار کے پرچے خریدنے کی جو درخواست دی گئی تھی اس کا اگر جلد تصفیہ فرما دیا جائے تو مناسب ہے۔ اچھا اب جائیے۔ مجھے ایک مضمون لکھنا ہے۔ خدا حافظ۔

(۳)

ایڈیٹر صاحب آرام کرسی پر لیٹے ہیں۔ گود میں کاغذوں کا ایک دستہ ہے۔ ہاتھ میں قلم ہے۔ آنکھیں بند ہیں۔ خراٹے لے رہے ہیں۔ ان کی ظاہری حالت پر نہ جانا۔ یہ بڑے آدمی ہیں۔ سوتے میں بھی مضمون لکھا کرتے ہیں۔ کیوں نہ ہو بڑی تقدیر والے آدمی ہیں۔ چار دفعہ جان بوجھ کر جیل خانے جا چکے اور سرکاری روٹیاں کھا چکے ہیں۔ سچ ہے جس کو خدا رکھے اس کو کون چکھے۔نوٹ اس مضمون کا اگر لطف اٹھانا ہے تو اس کے پہلے اور تیسرے حصے کو اسی لہجے میں پڑھئے جس لہجے میں پہلی جماعت کے طالب علم اردو کی پہلی کتاب پڑھتے ہیں۔ ہر لفظ کو کھینچتے ہیں اور ہر فقرے پر تان توڑتے ہیں۔ (مصنف)


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.