ایڈیٹر کا حشر

ایڈیٹر کا حشر

edit

پہلا ایکٹ

(سین: لاہور میں ایک سجی ہوئی انگریری وضع کی کوٹھی۔ وقت شام کے ساڑھے سات بجے۔)


نازلی بیگم (مسٹر عبد الواحد بیرسٹر کی ناز آفریں بیٹی جو اپنے بلند خیال باپ کی تہذیب پرستی کے تصدق میں انگلستان سے تعلیم کا پنج سالہ زمانہ ختم کر کے حال ہی میں وطن کو لوٹی ہے۔ لیمپ کی شعاعیں گلابی ساٹن کے فانوس میں سے چھن چھن کر دو چٹھیوں پر پڑ رہی ہیں جو اُس کے سامنے ایک تپائی پر رکھی ہیں اور وہ خود ایک پر تکلف کوچ پر بیٹھی ہوئی اپنے جی سے باتیں کر رہی ہے): ایک دن میں دو پیغام! کسے قبول کروں اور کسے رد کروں۔ جس طرح اسلام نے مردوں کو چار چار بیبیاں کر لینے کی اجازت دی ہے کاش عورتوں کو اس سے آدھا ہی حق دیا ہوتا تاکہ میں ایک وقت میں ان دونوں کے ساتھ عقد کر سکتی۔ دونوں اپنی اپنی جگہ میری گرویدگی پر حق رکھتے ہیں۔ ایک دولت مند اور ذی و جاہت ہے، دوسرا علم و فضل اور حسن ظاہری میں اپنا جواب آپ ہے۔ محمد اسلم ویسراے کی کونسل کا ممبر ہے۔ لکھ پتی زمیندار ہے اور ملک میں ایک خاص وقعت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ محمد یوسف اعلیٰ درجہ کا شاعر ہے۔ نہایت رنگین و مرصع نثر لکھتا ہے۔ اور اخبار “کوکبِ صبح” کے ایڈیٹر و مالک ہونے کے لحاظ سے معروف اشخاص کے حلقہ میں داخل ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کی آنکھوں میں کُچھ ایسا جادُو ہے کہ جس دن پہلی مرتبہ ٹھنڈی سڑک پر میری اُس کی نگاہیں چار ہوئی ہیں تو مجھ پر نیم مدہوشی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ کاش محمد یوسف کے پاس آنریبل کی دولت ہوتی پھر تو مجھے فیصلہ کرنے میں مطلق تامل نہ ہوتا۔ لیکن اس وقت حیراں ہوں کہ کیا کروں۔ اسلم کو خشک جواب دیتے وقت سونے اور چاندی کے پہاڑ قلم کے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں اور یوسف کے خیال کا دامن خواب میں نہیں چھوٹنے پاتا۔

(بآوازِ بلند خط پڑھنے لگتی ہے)

پیاری نازلی! مُجھے تُمھارے دل دادوں کے حلقہ میں داخل ہوئے اتنی مدّت گُذر چکی ہے کہ میرے دِل کی کیفیت سے تمھیں نا واقف نہ ہونا چاہیے۔ قصہ مختصر یہ کہ میں تم پر دل سے فریفتہ ہوں اور اگرچہ جانتا ہوں کہ میں تمھارے قابل نہیں لیکن پھر بھی یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا تم میری بی بی بننا پسند کرو گی۔ میں اس سوال کا جواب طلب کرنے کے لیے آج شام کے آٹھ بجے حاضر ہوں گا۔ خدا کرے یہ جواب باصواب ہو۔

تمھارا دلداره

محمد اسلم

اس خط کی شان ہی کہے دیتی ہے کہ اس کا لکھنے والا لگی لپٹی نہیں جانتا۔ کھرا اور بے لاگ آدمی ہے جس کی متانت تحریر عاشق کی کیفیت اضطرار کا مضحکہ اڑاتی ہے لیکن اس کے پختہ کار اور صاحب دولت ہونے میں شک نہیں اور مجھے اس کے یہ دونوں وصف دِل سے پسند ہیں۔ یوسف اگرچہ ذی ثروت نہیں یا کم از کم اس وقت اس کی مالی حالت اچھی نہیں اس لیے کہ اس کی کل کائنات اس کا اخبارات ہے جس کی اشاعت ایک ہزار سے زیادہ نہیں اور خریداروں کی بد مذاقی سے کم امید ہے کہ یہ تعداد کچھ بہت زیادہ ترقی کرے گی۔ لیکن کیا دولت ایسی شے ہے جس کی محبت کے سامنے کوئی حقیقت ہو! دل میں اگر کسی کے عشق کی شمع روشن ہو تو جھونپڑی میں رہ کر بھی محلوں کا لطف آ سکتا ہے۔ لیکن اگر حریمِ سینہ میں نور محبت کا اُجالا نہ ہو تو نقره و زر، دبیقی و دیبا، طاق و رواق، خدم و حشم سب ہیچ ہیں۔ آہ یوسف! جب تیری دلربا صورت، تیری متوالی آنکھیں، تیرا جذبہ زیر تکلم میرے چشم و گوش کی از خود رفتگی کا سرمایہ بنتا ہے تو مُجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں بجز تیرے اور کسی شے کا حقیقی وجود نہیں اور تو اگر پہلو میں ہو تو کوئی ایسی مصیبت نہیں جس پر مجھے راحت و عشرت کا گمان نہ ہو۔

(دوسرا خط اُٹھا کر پڑھنے لگتی ہے۔)

میری جان میرے ایمان!

کیا کہوں کتنی دفعہ جی چاہا ہے اور بے اختیار چاہا ہے کہ ان مضامین کو سپرد قلم کروں جن سے زیاده دلربا اور دل آویز مضمون میرے دماغ کو آج تک نہیں سوجھا لیکن اس تہی دستی و بے مایگی کا بُرا ہو جس نے میرے پیمانۂ تمنا میں تلخابۂ تامل ملا ملا دیا ہے۔ درد جب حد سے گذرتا ہے تو دوا ہو جاتا ہے۔ میرا جامِ محبت بھی آخر چھلک کر رہا۔ سچے عشق کی محفل میں مسند صدارت کہیں بچھی ہوئی نظر نہیں آتی۔ یہاں شاہ و گدا سب پہلو بہ پہلو بیٹھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ میں اگرچہ فقیر ہوں لیکن تُمھاری محبت کے صدقہ میں بادشاہوں سے اونچا دماغ رکھتا ہوں اور اسی لیے اپنے پیک خیال کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ تمھارے حجلۂ ناز تک بار پا سکے۔ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ ممکن نہیں کہ تمھارے آئینۂ دل میں میری محبت کا آفتاب منعکس نہ ہو۔ اسی امکان کو پیش نظر رکھ کر میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ کیا میری غربت و تہی دستی کی پردہ پوش تمھاری الفت ہو سکتی ہے اور تم میرے مقدر کی عنان اپنے پاتھ میں لے سکتی ہو۔ اس یقین کو تمھارے دل تک کیسے پہنچاؤں کہ اگر میں زندہ ہوں تو محض اس لیے کہ تم پر اپنی ساری ہستی کو تا دم زيست نچھاور کرتا رہوں۔

تمھارا کشتۂ الفت

یوسف

کیا اس خط کو پڑھ کر بھی جس کے لفظ لفظ سے درد ٹپک رہا ہے اور حرف حرف سے ایثار آفریں محبت کی بُو آ رہی ہے، روپیہ کی کوئی وقعت دل میں رہ سکتی ہے۔ روپیہ! لا حول و لا قوۃ!! اس لفظ کے نام سے مجھے گھن آنے لگی۔ یوسف! دونوں جہان کی دولت تمھاری زلیخائی سے مجھے باز نہیں رکھ سکتی۔ (اپنی ساعد سیمیں کو جس پر ایک جواہر نگار گھڑی بندھی ہوئی ہے بلند کر کے وقت دیکھتی ہے) ارے ساڑھے سات ہو گئے! (کمرے کے تابدان کی سجی ہوئی کارنس کی طرف بڑھ کر گھنٹی بجاتی ہے) محمد اسلم کے آنے کا وقت ہو گیا اور عجب نہیں کہ یوسف بھی آتا ہو۔

(خطوں کو لفافہ میں ڈال کر جیب میں رکھ لیتی ہے۔ دروازہ کھلتا ہے اور خادمہ آتی ہے)

خادمہ سے مخاطب ہو کر: دل افروز! اگر محمد یوسف آئیں تو انھیں اس کمره میں لے آنا، اور کوئی اور صاحب آئیں تو کہہ دینا کہ آج شام بی بی کو کسی سے ملنے کی فرصت نہیں ہے۔

دل افروز: بیوی! بہت اچھا۔ لیکن اگر آنریبل محمد اسلم آئیں تو؟

نازلی بیگم (گھرک کر): دل افروز! سڑن تو نہیں ہو گئی ہو۔ کیا میں نے صاف لفظوں میں نہیں کہہ دیا کہ کسی دوسرے صاحب سے میں نہ مل سکوں گی؟

دل افروز: بہت خوب حضور۔

(دل افروز چلی جاتی ہے)



دوسرا ایکٹ

آٹھ سال بعد

(سین: محلہ بلی ماراں (دہلی) میں پانچ روپیہ مہینہ کرایہ کا ایک مختصر سا مکان۔ مکان کے ایک حصّہ میں اخبار “کوکب صبح” کا مطبع ہے اور دوسرے حصہ کے ایک ہی حجرے سے اخبار کے دفتر باورچی خانے کھانے سونے بیٹھنے کا گوناگوں کام لیا گیا ہے۔ فرش اور فرنیچر نام کو نہیں۔ چھت دھوئیں کی کلونس سے شب دیجور بنی ہوئی ہے۔ ہر طرف افلاس اور نحوست کے آثار نمودار ہیں۔)

نازلی بیگم (جو اب مسٹر محمد یوسف ایڈیٹر “کوکب صبح” کی بیاہتا بی بی ہے، چار چھوٹے چھوٹے بچوں کو لیے جن میں سے ایک شیر خوار ہے اور چلا چلا کر رو رہا ہے ایک ٹوٹی کوچ پر بیٹھی ہے اور ایک بے ٹونٹی کی چا دانی سے تام چینی کی پیالیوں میں جن پر سے روغن اُڑ گیا ہے چا انڈیل رہی ہے): حامد! مکھن صرف جمعہ کے دن ملے گا۔ ضد نہ کرو اس وقت سوکھا توس ہی کھا لو۔ رشید! للچائی ہوئی نظروں سے اس انڈے کی طرف مت دیکھو۔ یہ تمھارے ابا جان کے لیے ہے۔ عائشہ! ننھا ایسا پھوٹ پھوٹ کر کیوں رو رہا ہے؟

عائشہ: اماں جان! ننھے کی بوتل میں جو دودھ آپ نے ڈالا تھا وہ میرے منع کرتے کرتے رشید پی گیا اور بوتل کو پانی سے بھر کر کہنے لگا کہ اتنا سا بچہ دودھ اور پانی کا فرق کیا جانے؟ اے لو ابا جان آ گئے ۔

(عائشہ بھاگی ہوئی باہر چلی جاتی ہے۔ مسٹر محمد یوسف کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔ “کوکب صبح” کی ایک کاپی جسے کسی کاتب سے لکھوا کر ابھی ابھی لائے ہیں، ہاتھ میں ہے۔ ایڑی سے لے کر چوٹی تک فلاکت کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ چہرے پر ہجوم افکار اور کثرت آلام سے جو جھریاں پڑ گئی ہیں انھیں دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ جامۂ ہستی کی آستینیں گاذر قدرت نے وقت سے پہلے چُن دی ہیں۔ سرکنڈے کے ایک ڈگمگاتے ہوئے مونڈھے پر بیٹھ جاتے ہیں اور ایک آہ سرد بھر کر کچھ دیر تک ماتھے کو ہتھیلی پر ٹیکے ہوئے فکر میں ڈوبے رہتے ہیں۔ پھر)

مسٹر محمد یوسف (تلخی کے لہجہ میں نازلی بیگم سے مخاطب ہو کر): نازلی! کیا اچھا ہو اگر گھر کے انتظام میں ذرا زیادہ سلیقہ اور کفایت شعاری سے کام لو۔ جب سے گورنمنٹ نے ڈھائی ہزار کی ضمانت طلب کی ہے جو تمھارا زیور بیچ کر میں نے داخل کی حالت روز بروز نازک ہوتی چلی جا رہی ہے۔

نازلی بیگم (شوہر پر ملامت آمیز نظر ڈال کر): اس سے زیادہ کفایت کیا خاک کروں۔ روٹی کے ایک سوکھے ٹکڑے اور پانی کے ایک آبخورے تک تو نوبت آ پہنچی ہے اور مشكل روح و جسم کا اتحاد قائم ہے۔ میں تم سے نہ کہتی تھی کہ اس اخبار کو بند کر دو اور کوئی اور دهندا پیٹ پالنے کا اختیار کرو لیکن تم نے میری ایک نہ سنی، اور ایک نامہ نگار کے بے راہ رو قلم کا خمیازہ کھینچ کر اس حالت کو پہنچ گئے۔ گورنمنٹ کو تمھاری اصلی نیت کے ساتھ کیا ہمدردی۔ یہاں تو ذرا لغزش ہوئی اور ضمانت کے شکنجے میں جکڑے گئے۔ خواہ اس میں کسی کا گھر بار ہی کیوں نہ بک جائے۔ میں جانتی ہوں کہ تم اپنے بادشاہ کے پسینے کے ایک قطرے کی جگہ اپنے سارے جسم کا خون بہانے کے لیے تیار ہو اور بادشاہ سلامت کے میز پر اگر کوکب صبح کی ایک کاپی رکھ دی جایا کرے تو مجھے یقین ہے کہ وہ اس ایک قابل گرفت مضمون پر جس کی پاداش میں تم سے ڈھائی ہزار کی ضمانت جبراً قہراً لی گئی ہے، اغماض کا پردہ ڈال دیں اور باقی مضامین کے صلہ میں جن کے حرف حرف سے وفا و ارادت کی بو آتی ہے تمھیں سی۔ آئی۔ ای بنا دیں۔ لیکن اس قانون کا کیا علاج جس کو نہ جذبات کی پروا ہے نہ احساسات کا خیال۔ یہ تو ایک آگ ہے جس میں نیک و بد وفادار و سرکش جو پڑا، جل گیا ؎

اگر صد سال گبر آتش فروزد چو یک دم اندراں ماند بسوزد


اب تم ہی بتاؤ کہ میں خود تو فاقہ بھی کر گذروں مگر ان چھوٹے چھوٹے بچوں کی مصیبت کیوں کر دیکھوں (زار و قطار رونے لگتی ہے)۔

محمد یوسف: میں نے حماقت کی کہ شادی کر لی۔ اس ملک میں اول تو ایڈیٹر کی مٹی پہلے ہی خراب ہے۔ پریس ایکٹ نے اس کی رہی سہی حیثیت بھی کھو دی اور ادخال ضمانت کے وقت جس کا خوف شامت اعمال کی طرح ہر وقت سر پر سوار ہے، ناظرین کی بد مذاقی و سرد مہری شاه مدار کا حکم رکھتی ہے جنھیں مرے کو مارنے کے فن میں ید طولیٰ حاصل ہے۔ آدمی اکیلا ہو تو ان سختیوں کو جھیل بھی جائے۔ لیکن بال بچوں کو ان مصیبتوں میں اپنے ساتھ شریک ہوتے دیکھنا ایک صدمۂ جان فرسا ہے (دروازے کے پٹ بڑے زور سے کھلتے ہیں اور عائشہ ہانپتی کانپتی بے تحاشا اندر داخل ہوتی ہے۔)

عائشہ: امی جان! خدا بخش قصاب باہر کھڑا ہے اور کہتا ہے کہ میرا تین مہینے کا حساب چکتا کر دو ورنہ میں آج سے گوشت اُدھار نہ دوں گا۔ نہال چند بزاز کا آدمی بھی اپنے حساب کی فرد لیے مطبع میں موجود ہے اور عبد الله پریس مین سے باتوں باتوں میں کہہ رہا تھا کہ اگر آٹھ دن کے اندر اندر ہمارا روپیہ نہ ادا کیا گیا تو مطبع قرق کرا لوں گا۔

نازلی بیگم: خدا کرے نہال چند کی دھمکی سچی ہو تاکہ جو کام طلائی چوڑیوں کی سفارش پر گورنمنٹ کے ہاتھوں انجام پاتے پاتے رک گیا تھا وہ میرے ایک ہی پھول دار ریشمی گون کی ضد کی وجہ سے جو میری شادی کی یادگار ہے، نہال چند کر دکھائے۔

محمد يوسف: نازلی! اس قدر افسردہ مت ہو۔ مصیبت کے دن کچھ ہمیشہ تھوڑے ہی رہیں گے۔ آخر راحت کا زمانہ بھی کبھی آئے ہی گا۔

دور گردوں گر دو روزے بر مراد ما نگشت دائما یکساں نباشد کار دوراں غم مخور ہر غمے را شادی در پے بود دل شاد دار ہیچ دردے نیست کورا نیست درماں غم مخور


“کوکب صبح” تو چلتا چلاتا نظر نہیں آتا۔ اپنا خرچ ہی نکالے جائے تو غنیمت ہے۔ وہ اصول یا بے اصولیاں جو اخبار کو آج کل کامیاب بناتی ہیں، مجھے پسند ہیں۔ نہ میں مسلمان جہلا کو خوش کرنے کے لیے ہندوؤں کو گالیاں دینے کا روادار ہوں۔ نہ ہندوؤں کے حلقہ میں اپنے اخبار کو ہر دل عزیز بنانے کے لیے ان کی قابلِ اعتراض باتوں کو لائق تحسین ظاہر کرنے کا حامی ہوں۔ نہ گورنمنٹ کی جھوٹی خوشامد کر کے اپنے شیشۂ ضمیر کو ارباب ذوق سلیم کے استہزا کا مد مقابل بنانا چاہتا ہوں۔ پھر آج کل کے طوفان بے تمیزی میں میرے اخبار کی اشاعت بڑھے تو کیوں کر بڑھے۔ اس کو میں بند بھی نہیں کرنا چاہتا اس لیے کہ اس کا بند کر دینا گویا حق و راستی کے منہ میں جان بوجھ کر کپڑا ٹھونس دینا ہوگا۔ اس لیے میں اپنی آمدنی کے بڑھانے کی کوئی اور ہی فکر کرتا ہوں۔ دو کتابیں لکھی رکھی ہیں ایک ناول ہے اور دوسری ایک علمی کتاب کا ترجمہ ہے۔ یہ چھپ جائیں تو عجب نہیں کہ ہزار پانچ سو روپیہ مل جائے۔

نازلی بیگم: تم ہمیشہ سے خیالی پلاؤ پکانے کے عادی ہو۔ کتابیں بیچ کر اگر نفع حاصل کرنا چاہو گے تو رہا سہا اثاث البیت بھی نیلام ہو جائے گا۔ تم ہو کس خیال میں۔ مولوی شبلی اور خواجہ حالی جیسے مصنفوں تک کی کتابیں تو بکتی ہی نہیں، تمھاری کتابوں کو کون پوچھے گا۔ یہ میں نے مانا کہ تم اچھے لکھنے والے ہو لیکن یہ زمانہ اہل قلم کے لیے ساز گار نہیں ہے۔ علمی کتابوں کا تو نام مت لو۔ کہنے کو سب کہتے ہیں کہ علمی کتابوں کے تراجم سے اردو لٹریچر میں اضافہ ہونا چاہیے اور بڑے بڑے شاندار فقروں میں ان لوگوں کو ملامت کی جاتی ہے جو دماغ رکھتے ہیں لیکن اس سے کام نہیں لیتے۔ لیکن جب کوئی کتاب جو حقیقت میں قابلِ قدر ہو چھپتی ہے تو چھاپنے والا اس کی چھپائی کا خرچ بھی نہیں نکال سکتا۔ باقی رہے ناول، سو آج کل ان کا بازار بھی سرد پڑا ہوا ہے۔ میں آج تک یہی نہیں سمجھی کہ پبلک پسند کس چیز کو کرتی ہے اور اس کا مذاق کیا ہے۔

محمد یوسف: تو پھر کیا کروں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھا رہوں۔

نازلی بیگم: بھانڈ بنو۔ نقلیں کرو۔ بندر نچاؤ۔ سرکار رس اور دربار نشین لوگوں کی ہاں میں ہاں ملاؤ۔ جھوٹ بولو۔ خوشامد کرو۔ اس قسم کی ہر بات کرو۔ لیکن خدا کے لیے مضمون نگاری یا تصنیف و تالیف کو ذریعۂ معاش بنانے کے خبط سے باز آ جاؤ۔

محمد یوسف اُٹھ کر چلا جاتا ہے اور کچھ دیر کے بعد نازلی بیگم ایک ٹوٹے ہوئے آئینہ کے سامنے اپنے عکس سے یوں خطاب کرتی ہے: “کیا تو اسی حوروش لڑکی کی تصویر ہے جس کا یہ خیال تھا کہ عشق و محبت کی دولت وہ دولت ہے جس کے مقابلہ میں ساری دنیا کے خزانے ہیچ ہیں؟ کیا رعنائی شباب کبھی تیرے حصے میں آئی تھی؟ یہ اُترا ہوا چہره، یہ زرد رخسار، یہ فکر مند آنکھیں، یہ نحیف و لاغر جسم جس میں بجز پوست و استخوان کے کچھ باقی نہیں کس کا ہے؟ (کانپ کر منہ پھیر لیتی ہے اور ایک ٹولی ہوئی کرسی پر بیٹھ جاتی ہے) کیا اب بھی اگر مجھے موقع ملے تو میں یوسف ہی کو پسند کروں؟ کیا اس زندگی سے اس کی ان تلخیوں کو جانتے ہوئے میں مقابلہ کروں؟ ہرگز نہیں! ہزار بار نہیں!! اسلم مجھے اب دیکھے تو کیا وہ مجھے پہچان لے؟ کیا اس کی شادی ہو چکی ہے؟ کاش میں پھر لاہور میں ہوں۔ جوانی کا عالم ہو اور مجھے اسلم و یوسف دونوں میں انتخاب کرنے کا موقع دیا جائے۔ اس زندگی سے تو میں بیزار ہوں۔ (اپنی ساڑھی کا پلو ہاتھ میں تھام لیتی ہے) او میلی کچیلی ململ کی ساڑھی! مجھے تجھ سے نفرت ہے (پلو کو پھاڑ ڈالتی ہے) اور اگرچہ میں جانتی ہوں کہ دوسری ساڑھی جو دھوبن کے ہاں گئی ہوئی ہے ابھی نہیں آئی اور کل صبح میرے پاس پہننے کو کچھ بھی نہیں پھر بھی میں تجھے نوچوں گی، نوچوں گی، پھاڑوں گی۔”

(پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہے)



تیسرا ایکٹ


(سین: وہی جو پہلے ایکٹ میں تھا یعنی لاہور میں ایک سجی ہوئی انگریزی وضع کی کوٹھی۔ پہلے اور دوسرے ایکٹ کا درمیانی وقفہ پندرہ منٹ ہے۔ نازلی بیگم آنکھیں ملتی ہوئی کوچ سے اٹھ بیٹھتی ہے اور چاروں طرف گھبرائی ہوئی نظر ڈالتی ہے۔ اس کے چہرے کی مایوسی تعجب سے، تعجب بے اعتباری سے اور بے اعتباری اطمینان سے بدل جاتی ہے۔)

نازلی بیگم: خدا کا شکر ہے کہ یہ محض ایک خواب پریشان تھا۔ (یوسف کے خط کے پرزے پرزے چاروں طرف بکھرے ہوئے پاتی ہے) مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے اسے چاک کیا ہو۔ البتہ ململ کی ساڑھی کو جو میں خواب میں پہنے ہوئے تھی میں نے ضرور پھاڑا تھا۔ ململ کی ساڑھی! (نفرت کے لہجہ میں) میں نے کبھی نہیں پہنی اور نہ کبھی پہنوں گی۔ شکر ہے کہ ابھی تک نکاح کی زنجیر میرے پاؤں میں نہیں پڑی اور اس سے بھی بڑھ کر شکر کا مقام یہ ہے کہ وہ چار ڈراؤنے بچے میرے نہیں ہیں۔ اگرچہ عائشہ کی شکل ضرور پیاری تھی۔ پریس ایکٹ اور اردو اخباروں کی حالتِ زار کے مباحث پڑھنے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے۔ پھر بھی اگر یوسف کے ساتھ شادی کرنے سے میرا یہی حشر ہونے والا ہے تو میں نے فیصلہ کر لیا۔ (گھنٹی بجاتی ہے)

دل افروز: کیا حضور نے گھنٹی بجائی تھی؟

نازلی بیگم: ہاں۔ یہ چا کی کشتی اٹھا کر لے جاؤ۔ اور سنو۔ آنریبل مسٹر محمد اسلم آئیں تو انھیں یہاں لے آنا اور کوئی صاحب آئیں تو کہہ دو کہ مجھے فرصت نہیں۔

دل افروز: لیکن بیوی! مجھے خیال پڑتا ہے کہ آپ نے مجھ سے یہ فرمایا تھا کہ مسٹر محمد یو۔۔۔

نازلی بیگم: نہیں دل افروز، میں ان سے نہیں ملوں گی۔ سمجھی؟

دل افروز: جی ہاں حضور۔ خوب سمجھی۔

دل افروز چلی جاتی ہے۔

(دس دن بعد مسٹر محمد یوسف اپنے دفتر میں کوکب صبح کی اگلی اشاعت کے لیے لیڈر لکھنے بیٹھے ہیں جس کا موضوع یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت جارج خامس خلد اللہ ملکہم کی رونق افروزیِ ہند کی یادگار میں بہ تقریب جشن مبارک تاج پوشی قانون مطابع منسوخ ہو جانا چاہیے۔ لاکھ قلم کو دوات میں ڈبوتے ہیں، رہ رہ کر سر کھجاتے ہیں مگر نہ آمد کام دیتی ہے نہ آورد۔ دماغ طرح طرح کے پریشان کن خیالات کی جولانگاه بنا ہوا ہے۔ مجبور ہو کر قلم ہاتھ سے رکھ دیتے ہیں اور اپنے جی سے باتیں کرنے لگتے ہیں۔)

مسٹر محمد یوسف: میں احمق تھا جو اس بے استطاعتی پر اپنے آپ کو نازلی بیگم کے قابل سمجھا۔ آج کل دنیا پر روپیہ کی حکومت ہے۔ نہ کوئی علم و فضل کو پوچھتا ہے، نہ كمال و لياقت کو۔ محمد اسلم میرے بوٹ کا تسمہ باندھنے کی قابلیت نہیں رکھتا۔ آنریبل ہونے پر اس کی لیاقت کی یہ کیفیت ہے کہ پرائمری تعلیم کو باغیانہ خیالات کا پیش خیمہ سمجھ کر ملک کے لیے مضر قرار دینے کی مضحکہ انگیز لغویت کا اقدام کرتا ہے۔ مگر چونکہ روپیہ والا ہے، اس لیے نازلی بیگم جھٹ اُس کے آغوش میں چلی جاتی ہے۔ میں ایسی بی بی سے باز آیا۔ مجھے میکالے اور ٹنی سن اور اسپنسر پڑھی ہوئی حریت پسند بی بی کی ضرورت نہیں جو اس اعلیٰ تعلیم پانے پر بھی اس درجہ کنیز زر اور غرض پرست ہو۔ مجھے تو وہی پردہ نشین اردو پڑھی ہوئی قرآن کی آیتوں کا مطلب سمجھی ہوئی بی بی چاہیے جو میری شریک رنج و راحت ہو سکے اور میرے دال دلیے کو پلاؤ قلیہ سمجھنے کی قابلیت رکھتی ہو۔

(پردہ گر پڑتا ہے۔)

نوٹ: مندرجہ بالا قصہ اگرچہ اوریجنل نہیں ہے لیکن قرین قیاس ضرور ہے۔ ان آخری مشہور و معروف ضمانت طلبیوں سے ہی کسی ایڈیٹر کا حال محمد یوسف کا سا ہو گیا ہو تو ہمیں کیا معلوم۔ ہز اکسیلنسی لارڈ ہارڈنگ بہادر (جنھوں نے قضیہ کانپور کو ختم کر کے ایک چوتھائی ہندوستان کیوں، کل ہندوستان کے دلوں کو موہ لیا ہے) کاش اس پریس ایکٹ کی طرف بھی توجہ فرمائیں اور اپنے عہد کی یادگاروں میں اس کی تنسیخ کی یادگار بھی چھوڑتے جائیں تو بڑا کام کریں۔ یہ اوراق ہم نے حضور پر نور ہی کے ملاحظہ گرامی کے لیے شائع کیے ہیں۔ ان کا ترجمہ اُن کی نظر سے گذرے گا تو وہ یقیناً بے چین ہو جائیں گے۔ خدا ایسے رحیم و کریم ویسراے کو ہمارے سروں پر مدت تک رکھے اور ہر ادنیٰ اعلیٰ حاکم پر ان کا سایہ ڈالے۔

محمد الواحدی

ایڈیٹر نظام المشايخ دہلی

۲۵؍ اکتوبر ۱۹۱۳ء؁